کے-الیکٹرک: 11 سال کا فرانزک آڈٹ ؟؟۔

586

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) 2001ء سے قبل وفاقی وزارت پانی و بجلی کے زیر اہتمام ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت سے خوش اسلوبی سے کام کر رہا تھا اور اس کے جنریٹنگ یونٹس ویسٹ ہارف، کورنگی کریک اور پورٹ قاسم اتھارٹی پر بخیر و خوبی کام کر رہے تھے نہ صرف کراچی کے شہری و صنعتی علاقوں کی بجلی کی ضرورت پوری کی جا رہی تھی بلکہ حب اور اوتھل بلوچستان کے علاقوں کی بجلی کی ضرورت بخیر و خوبی پوری ہو رہی تھی کہ اچانک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کچھ عاقبت نااندیش دوستوں کی باتوں میں آکر کے ای ایس سی کی نج کاری کا فیصلہ کیا جن لوگوں نے یہ ’’مخلصانہ‘‘ مشورہ دیا تھا انہیں دراصل پاکستان سے شدید دشمنی تھی اور وہ لوگ چاہتے بھی یہی تھے کہ کے ای ایس سی، پی ٹی سی ایل اور اسٹیل مل جیسے منافع بخش ادارے اونے پونے فروخت کر دیے جائیں۔ شوکت عزیز نے کے ای ایس سی دبئی کے ابراج گروپ کے حوالے کر دیا اور سن کر حیرت ہوگی کہ صرف کے ای ایس سی ٹوٹل 60 لاکھ روپے میں فروخت کی گئی جبکہ خفیہ طور پر دبئی میں شوکت عزیز کے اکائونٹس میں اصل رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی گئی ہوگی۔ کے ای ایس سی کی نج کاری میں ایم کیو ایم کے لیڈران ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما شریک تھے۔
کے ای ایس سی کا نام تبدیل کرکے KEرکھ دیا گیا، کو ابراج گروپ چلانے میں ناکام ہوا پھر اس ادارے کو سیمنس انجینئرنگ کے حوالے کر دیا گیا تھا اور سیمنس انجینئرنگ لمیٹڈ کراچی نے بغیر کوئی رقم ادا کیے اپنی کمپنی کا سامان فروخت کرتی رہی اور کے ای کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آگئی تھی۔ جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو کراچی میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں تمام کمرشل بینکوں سے کے ای کی انتظامیہ کو تقریباً 24 ارب روپے کا قرض دلوایا گیا تھا۔ 2008-09ء میں ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کے ای کی قیادت کر رہے تھے اور انہوں نے کے ای ایس سی کی تمام عمارتیں، زمینیں تمام Equipments ان کمرشل بینکوں میں گروی رکھوا دیا جو آج تک ہے جب یہ قرضہ منظور ہوا تھا تو سابق صدر آصف علی زرداری نے ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اس پیسے کو قطعی استعمال نہیں کریں گے اور انہوں نے اس رقم کو ہاتھ تک نہیں لگایا آصف علی زرداری کے حکم پر ان کی بہن فریال تالپور بورڈز آف گورنر میں شامل ہوگئیں اور بقول کچھ کے ای کے افسران و اسٹاف، میڈم فریال تالپور کو 80 فی صد شیئر کا مالک بنا دیا گیا جبکہ ظفر عثمانی اور
نوید اسماعیل کو برطرف کر دیا گیا۔ سابق ڈائریکٹر کے ای تنظیم نقوی نے پریس کانفرنس کرکے انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ5 لاکھ کنڈوں سے غیر قانونی طور پر بھتا حاصل کر رہے ہیں اور کے ای کے 24 ارب روپے کے قرضہ کا آج تک کوئی مصرف نظر نہیں آیا اور کے ای پر 24 ارب روپے کے مہنگے قرضے کا سود چلتا آرہا ہے جو کے ای کی مزید تباہی و بربادی کر دے گا۔ عوام کے ذہنوں میں طرح طرح کے وسوسے ہیں کہ کے ای ایس سی کے کرپٹ افسران و عملے نے 24 ارب روپے کا قرضہ منی لانڈرنگ کے ذریعے دبئی بھجوادیا ہوگا اور یہ ساری رقم مبینہ طور پر دبئی میں کسی اعلیٰ شخصیت کے اکائونٹس میں بھیجی گئی ہوگی؟ جو بعد ازاں دبئی سے سوئٹزرلینڈ بھیج دیا گیا ہوگا۔ ثبوت کے طور پر کے ای ایس سی کی 2016ء کی بیلنس شیٹ دیکھی جا سکتی ہے۔بعد ازاں تابش گوہر صاحب مہنگے داموں پر چیف آپریٹنگ آفیسر لگے تھے اور رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی تھی خوش قسمتی سے وہ ایم کیو ایم کی اہم شخصیت خوش بخت شجاعت کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ کے ای میں کافی عرصہ خدمات دینے کے بعد انہیں فارغ کر دیا گیا تھا۔ کمرشل بینکوں کا 24 ارب روپے کا قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے کے ای پر سود کے واجب الادا رقم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کے ای کی صنعتی علاقوں میں لوڈ شینڈنگ کی وجہ سے
ایکسپورٹ پر شدید منفی اثرات نمایاں ہیں۔ کے ای کے اس وقت تمام جنریٹنگ یونٹس صحیح طرح سے کام نہیں کر رہے، صرف جام شورو کے تھرمل پاور اسٹیشن سے بجلی حاصل کرکے کراچی کے عوام کو سپلائی کر رہی ہے یا چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹوں سے کے ای ایس سی انتظامیہ نے بجلی کے تار بھی تبدیل کر دیے اور گھٹیا قسم کا تار بجلی کی ترسیلات میں استعمال ہو رہا ہے۔ عوام ہر وقت کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان حال ہیں جبکہ کے ای کے افسران کے سب اسٹیشنوں میں ائرکنڈیشنرز لگوا کر آرام و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں اور کراچی کے عوام مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ KE ہر سال اپنے سالانہ آڈٹ میں 24 ارب روپے کا قرض مع سود دکھاتی ہے اور یہ سارا پیسہ مع سود کے عوام سے وصول کیا جا رہا ہے۔ 24 ارب روپے قرض جو کمرشل بینکوں سے لیا گیا تھا اس کا کوئی مصرف نظر بھی آرہا ہے یا نہیں اور کیا وہ پیسہ کرپشن یا غبن کی نظر ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں نیب کراچی نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا راقم الحروف کو Call-up Notice بھجوایا گیا تھا جس کا جواب دے دیا تھا لیکن آج تک اس تحقیقات کا پتا نہیں چلا۔
میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ چیئرمین نیب اسلام آباد اور ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے اسلام آباد سے کے- الیکٹرک کا 11 سال 2008-09ء سے لے کر 2019-20ء تک کا فرانزک آڈٹ کرائیں ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل ہے۔