اسرائیل کی پہلی پرواز مراکش پہنچ گئی

449

تل ابیب: اسرائیل اور امریکا کے اعلیٰ حکام کو لےکر صہیونی ملک کی پہلی پرواز مسلم افریقی ملک مراکش پہنچ گئی۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشير مير بن شبات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطی امور کے مشير جيرڈ کُشنر کی قیادت میں دونوں ممالک کے اہم حکام پر مشتمل مشترکہ وفد تل ابیب سے مراکش پہنچ گیا جہاں وہ ملک کے بادشاہ شاہ محمد سے ملاقات کریں گے۔

مسلم ملک مراکش کی جانب سے امریکی ثالثی کے نتیجے میں 10 دسمبر کو اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد یہ اسرائیل کی پہلی پرواز ہے۔ اس دورے کا مقصد ایوی ایشن، سیاحت، صحت، پانی، زراعت اور دیگر اہم شعبوں میں معاہدوں کو حتمی شکل دینا ہے۔

وفد کی قیادت کرنے والے اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر اور امریکی صدر کے مشیر نے روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو میں مراکش کے دورے کو خطے میں قیام امن اور باہمی رواداری کے لیے اہم قرار دیا۔

واضح رہے کہ مراکش سے قبل اسلامی ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کرچکے ہیں اور ان ممالک نے اسرائیلیوں کے لیے اپنے فضائی راستے بھی کھول دیئے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر نے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اعلان کیا تھا کہ آج ایک اور تاریخی پیش رفت ہوئی ہے، ہمارے دو قریبی دوست اسرائیل اور سلطنت مراکش نے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ امریکی صدر کی جانب سے اعلان 11دسمبر کو کیا گیا تھا۔

مراکش اسرائیل کے تاریخی تعلقات: کس طرح مراکش نے 1967 کی جنگ میں موساد کو سعودی افواج کی خفیہ معلومات دیں

مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آجانا حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ اسرائیل اور مراکش کے درمیان تعلقات غیر سرکاری سطح پر کئی دہائیوں سے موجود رہے ہیں۔

عرب امارات، سوڈان اور بحرین کے بعد مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔ مگر ان تینوں ممالک میں مراکش اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو خصوصی حیثیت اور تاریخی فوقیت حاصل ہے اور یہ بچھلے 60 سالوں پر محیط ہے۔

اگرچہ مراکشی حکام نے تاریخی طور پر اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو مسترد کیا ہے لیکن فوجی اور انٹیلیجنس ، ٹکنالوجی اور زراعت کے میدانوں میں تجارتی روابط تقریبا 6 دہائیوں سے رہے ہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے مشرق وسطی کے پروگراموں کے ایک سینئر عہدیدار کارمیل آربٹ کا کہنا ہے کہ دنوں ممالک کے درمیان بحالئیِ تعلقات کا اعلان حیرت انگیز نہیں ہے۔ اسرائیل اور مراکش کے مابین تعلقات کئی دہائیوں سے مضبوط ہیں۔ مراکش ایک زمانے میں خطے میں یہودیوں کی کا مرکز تھا اور موجودہ بادشاہ مراکش کے ورثے میں یہودیوں کے وجود کو قبول کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ متعدد سینئر حکومتی مشیر یہودی ہیں اور حال ہی میں مراکشی اسکولوں میں یہودی تاریخ کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

دونوں ممالک کے مابین سالانہ تجارت میں پہلے ہی 30 ملین ڈالر سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح ہر سال ہزاروں اسرائیلی مراکش آتے ہیں اور اس کی شہریت حاصل کرتے رہتے ہیں۔

جب مراکش کے شاہ حسن دوم نے سن 1961 میں اقتدار سنبھالا تو اسرائیلی ایجنٹس نے اپوزیشن لیڈر مہدی بین بارکہ کو راستے سے ہٹانے کی اپنی سازش سے شاہ حسن دوم کو آگاہ کیا اور اپنی مدد کی پیش کش کی۔

شاہ نے اسرائیل کے خفیہ سروس ونگ موساد کو مراکش میں ایک اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ تل ابیب نے مراکش کو ہتھیار فراہم کیے اور تربیت دی ، مراکش انٹیلیجنس سروس کا انتظام کیا ، اور نگرانی کی ٹیکنالوجی فراہم کی۔ دونوں ممالک کے جاسوس معلومات کے تبادلے میں مصروف ہوگئے اور بالآخر موساد نے بارکہ مراکشی انٹیلیجنس کے ذریعے دھوکے سے پیرس بلوایا جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا اور تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

1965 میں جب کاسا بلانکا میں عرب رہنماؤں اور فوجی کمانڈروں کی ملاقات ہوئی تو مراکش نے موساد کو ان کی مجالس اور نجی رہائش گاہوں میں جاسوسی کرنے کی اجازت دی۔ اسرائیلیوں کو ایسی معلومات سے آگاہ کیا جو 1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے متعلق اہم معلومات تھیں۔ اسرائیلی فوجی انٹلیجنس کے سابق سربراہ ، جنرل شمومو گزیت نے کہا تھا کہ اسرائیل عرب کی چھ روزہ جنگ کے آغاز میں عرب قیادت کی مباحثے کی وہ خفیہ ریکارڈنگ اس بات کا انکشاف کرنے میں بہت اہم تھیں جس میں روزِ روشن کی طرح عیاں تھا کہ عرب جنگ کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔