فوجی سربراہ کا استعفا

982

اکیس دسمبر 1971 کا وہ دن مجھے بخوبی یاد ہے جب ملک کے دو لخت ہونے اور بنگلا دیش کی جنگ میں فوج کی شکست پر پورے ملک میں عوام کے غم و غصہ اور مظاہروں کے نتیجے میں صدر یحییٰ خان کو استعفا دے کر اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ یحییٰ خان فوج کے پہلے سربراہ نہیں تھے جنہیں استعفا دینا پڑا۔ ان سے پہلے 1969 میں جنرل ایوب خان کو اقتدار سے سبک دوش ہونا پڑا تھا۔ لیکن ایوب خان اور یحییٰ خان کی اقتدار سے علاحدگی میں فرق تھا۔ ایوب خان پر براہ راست ملک کو دو لخت کرنے یا جنگ ہارنے کا الزام نہیں تھا جب کہ یحییٰ خان پر نہ صرف ملک کو دو لخت کرنے بلکہ جنگ ہارنے کا بھی الزام تھا اور ان کے استعفے پر اصغر خان نے یحییٰ خان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ان پر کسی نے مقدمہ نہیں چلایا۔ وجہ اس کی ذوالفقار علی بھٹو نے لندن میں 1973 کی ایک طویل ملاقات میں بتائی تھی۔ میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا تھا کہ لوگ یہ نہیں سمجھ سکے کہ آپ نے ملک کو دو لخت کرنے والے بڑے مجرم جنرل یحییٰ خان پر غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟ کہنے لگے کہ یہ لکھنے کی بات نہیں، اس بارے میں امریکیوں کا شدید دبائو تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یحییٰ خان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگے کیوں کہ امریکیوں کی رائے میں یحییٰ خان نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بے حد اہم رول ادا کیا تھا اور وہ ان کے بے حد ممنون احسان ہیں۔ ایک بڑی وجہ اس بات کا بھی بھٹو صاحب کو خوف تھا کہ اگر یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ چلا تو وہ بھی اس میں گھسیٹے جائیں گے اور انہیں اپنے رول کے بارے میں جواب دینا پڑے گا۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے ذہن پر فوج اور فوجی جرنیلوں کا خوف بری طرح طاری تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد جب بھٹو صاحب سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کر کے جرنیلوں کے بلاوے پر وطن واپس جارہے تھے تو وہ لندن کے ہوائی اڈے ہیتھ رو پر رکے تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ و ی آئی پی لاونج میں ان کی ملاقات اس زمانے کے وزیر خارجہ ایلک ڈگلس ہیوم سے ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد پتا چلا کہ جرنیلوں نے خاص طیارہ لندن بھیجنے کے بجائے روم بھیجا ہے۔ روم کی پرواز کے لیے ہیتھ رو کے ٹرمنل 2 پر جانا پڑا۔ روم کی پرواز تین گھنٹے بعد تھی۔ اس دوران میں بھٹو صاحب کے اصرار پر میں ان کے ساتھ تھا۔ مجھے ملک ٹوٹنے کا اس قدر صدمہ تھا کہ مجھ سے زیادہ بات نہیں ہورہی تھی۔ لیکن بھٹو صاحب اس بات پر پریشان تھے کہ جرنیلوں نے طیارہ روم کیوں بھیجا ہے۔ کہنے لگے کہ کم بخت جرنیل ان کا طیارہ کریش تو نہیں کرادیں گے۔ میں نے ان کو تسلی دینے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ اس وقت فوج کو ان کی ضرورت ہے ملک کو سنگین بحران سے نکالنے کے لیے۔ میں نے کہا کہ 1958 میں آپ مارشل لا کی حکومت میں شامل ہوئے تھے اس وقت آپ کی سیاسی قوت نہیں تھی لیکن اب بچے کھچے پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے فوج کو ان کی شدید ضرورت ہے۔
بہرحال بھٹو صاحب نے وطن واپس آکر ملک کی صدارت سنبھالی اور ملک کے انتظام کو اپنے ہاتھ میں لیا جب کہ ملک دو لخت ہو چکا تھا اور پورے ملک پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یحییٰ خان نے جن حالات میں استعفا دیا ہے اب ملک میں فوج کے اقتدار کا دور ختم ہوگیا ہے۔ لیکن یہ لوگوں کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ چھ سال بعد بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہوگئے اور طیارہ کے حادثہ میں ہلاک ہونے تک گیارہ سال تک فوجی حکمران رہے۔ لوگوں کی امید بندھی تھی کہ اب فوجی حکمرانوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن 1999میں اچانک جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو بر طرف کردیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نواز شریف کو طیارہ اغوا کرنے کے الزام کے ساتھ ملک بدر ہونا پڑا لیکن وطن واپسی اور دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد جنرل مشرف پر آئین معطل کرنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ چلایا۔ جنرل مشرف واحد فوجی حکمران تھے جن کے خلاف مقدمہ چلا۔ لیکن مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ ان کی غیر حاضری میں جب وہ دبئی میں تھے سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور آخر کار لاہور ہائی کورٹ نے یہ سزا منسوخ کردی۔
صدر یحییٰ خان کے استعفے پر یہ سب واقعات اس لیے یاد آئے کہ یکے بعد دیگرے پاکستان میں فوجی حکمران بر سر اقتدار آئے لیکن کسی نے اس طرح استعفا دے کر اقتدار نہیں چھوڑا جس طرح یحییٰ خان کو اقتدار سے سب دوش ہونا پڑا۔ لیکن حقیقت میں یحییٰ خان کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان کو اسی طرح سزا ملنی چاہیے تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کسی فوجی حکمران کے خلاف عبرت انگیز کارروائی نہیں ہوئی اور نہ فوجی حکمرانوں کے لیے دروازے بند ہوئے۔