مسلمان بھڑکتا تو ہے جاگتا کیوں نہیں

605

یہ مناظر بارہا دیکھنے کو ملتے ہیں کہ معزب میں جب کبھی اسلام پرضرب لگی مسلمان فوراً بھڑک اٹھتا ہے۔ تاہم یہ بھڑکائو وقتی ہوتا ہے۔ ابھی بھی مسلمان مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں مسلمان یہ طے نہیں کر سکا کہ اسے کرنا کیا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے پوری دنیا کے مسلمان مغرب کی ٹیکنالوجی کے سحر میں گرفتار رہیں۔ نظامِ تعلیم چاہیے تھا تو مغرب سے لے لیا۔ امور مملکت چلانے کے لیے انہیں کا نظام نافذ کر دیا۔ کوئی ان سے پوچھے آپ کا اپنا نظام کہاں ہے۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک کی صورتحال یہ ہے کہ نہ تو ان کے پاس کوئی اپنا نظام ہے اور نہ ہی انہوں نے دوسروں کا نظام مکمل طور پر نافذ العمل کیا۔ حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ قطر اپنا پہلا الیکشن 2022 میں متعارف کروائے گا۔ بہر حال آپ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں سب جگہ مغربی نظام نظر آئے گا۔ سوائے مساجد کی تزئین و آرائش کے آپ کو ہمارے ہاں کچھ نیا نظر نہیں آئے گا۔ صرف ایک مرتبہ ایک صاحب نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ ملتان کے ایک علاقے میں ٹائون پلاننگ کرتے ہوئے کچھ الگ طریقے سے رہائشی کالونی ڈیزائن کی پتا چلا کہ ہر گھر کو دو گلیاں لگتی ہے۔ پچھلی گلی کو خواتین استعمال کرتی تھیں۔ جب ہم نے اس کی کھوج لگائی تو معلوم ہو ا کہ اس کے تانے بانے عرب کے دور ِ عروج سے جا ملتے ہیں۔ خواتین یہ گلیاں استعمال کرتیں اور مصلیٰ نساء (خواتین کی مسجد) تک جاتیں۔ یہ مصلیٰ نساء کچھ عرب ممالک میں آج بھی نظر آتے ہیں۔ یہ مسجد کے ساتھ ایک ہال ہوتا ہے جہاں خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔
بہر حال یہ ذکر تھا ایک صاحب کی Innovation کا اس طرح کے اور کتنے معاملات ہیں جن پر یہی سوچ بچار کرنی ہے اور ان میں جدت طرازی بھی کرنی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی مسلمان کے جاگنے سے اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو چین اور جنوبی کوریا کے بعد اور کئی ممالک سے ہم پیچھے چلے جائیں گے۔ راقم کے ایک دوست نے کراچی کی ایک بہت بڑی شخصیت سے رابطہ کیا تا کہ تعلیم و تربیت کے شعبوں میں کچھ کیا جائے۔ تا ہم جواب ندارد۔ بلکہ اُن کو یہ تک کہا کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں۔ دسیوں امراض آپ کو لاحق ہیں۔ یہ اچھا ہو گا کہ ملک و ملت کے لیے پیسے کو خرچ کرنا شروع کریں۔ نہ جاگنا تھا اور نہ ہی وہ جاگے اس طرح کے اور سیکڑوں لوگ ہیں جو چاہیں تو آج پاکستان کا نظام تعلیم بدل دیں۔ میں بار ہا لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ ہم 1960 سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔
ماڈل اسکول، کمپری ہنسو اسکول اور ٹیکنیکل اسکول، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کھل گئے تھے۔ ان سے پڑھ کر بہترین ہنر مند افراد پیدا ہوئے۔ 1980 کے بعد اندھیرا چھا گیا۔ فی الحال ہم اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ آج کل بہت شور سن رہے ہیں کہ جناب ہم کچھ خاص بنا نہیں رہے جب ہی ڈالر اوپر جا رہا ہے۔ 1880 کا نصاب پڑھا کر ہم کیا بنائیں گے۔ ہم سے کئی گنا پیچھے ملک مثلاً ملیشیا اورجنوبی کوریا بہت آگے جا چکے ہیں وجہ کیا ہے صرف تعلیم۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم مل کر بیٹھیں اور صرف تعلیم پر توجہ دیں۔ پاکستان میں چند تعلیمی اداروں نے کیمرج سسٹم لاگوکیا کچھ کامیاب رہے کچھ فیل ہو گئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اساتذہ کرام یہ کیمرج کورس پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ آج اگر ہماری حکومت کیمرج سسٹم کا نصاب سرکاری اسکولوں میں رائج کردیتی ہے تو پڑھانے والے کہاں سے آئیں گے۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ CSS تو کرنا چاہتے ہیں مگر استاد نہیں بننا چاہتے؛ تو اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
موجودہ جرمن حکمران انجیلا مرکل سے ڈاکٹروں اور انجینئرز نے سوال کیا کہ اساتذہ کی تنخواہ ہیں ہماری تنخواہوں سے زیادہ کیوں ہیں۔ انہوں نے مختصر سا جواب دیا وہ آپ کو بتاتے ہیں۔ تا دم تحریر کسی اسلامی ملک نے تعلیم کو اہمیت نہیں دی سوائے ملیشیا کے GCC اور OIC جیسے ادارے تو بن گئے مگر مآخد کیا ہے۔ راقم آج سے دس برس قبل قطر گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں پیسوں کے بلبوتے پر انتہائی شاندار عمارت تعمیر کرائی۔ یہ عمارت سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے مخصوص تھی۔ تاہم سائنسدان بر آمد نہ ہو سکے۔ سائنسدان تو تہجد کے وقت اٹھتا ہے اور تحقیق میں گم ہو جاتا ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نظام شمالی کوریا سے بھی پیچھے ہے۔ شمالی کوریا میں یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے، حتیٰ کہ یونیفارم بھی حکومت کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی کا طالب علم فیس دے کر جماعتوں کے درجے پورے کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بے روز گاری کا خوف اس کے اندر کی تحقیق اور تخلیقی احساس کو چھین لیتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایک تازہ خبر آئی ہے کہ 1990 میں قائم ہونے والے کیمرج اسکولوں کے 70 فی صد بچے کالج میں آکر سائنس چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر میٹرک انٹر والے سائنس جاری بھی رکھتے ہیں تو ان کا مقصودِ اصل لیکچر شپ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تحریک کے پیچھے بھی دس ہزار کا انکریمنٹ کار فرما ہوتا ہے۔ خدا کے لیے تحقیق اور تخلیق کے لیے ڈگریوں کے لباس نہ پہنائیں۔ نوجوانوں کو سوچنے دیں، کام کرنے دیں، ان کے لیے کھلے دل سے وضائف کا اہتمام کریں حکومت کو چاہیے کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا ماحول پیدا کرے۔ جب مصنوعات ہمارے ہاں بننا شروع ہوںگی تو غیروں کے آگئے ہاتھ بھی نہیں پھیلانا پڑے گا۔
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے