پاکستان کو روانڈا بنانے کا کھیل

527

1980ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد اور طویل جنگ کے نتیجے میں روسی فوجوں کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ سنگین معاشی بحران کی وجہ سے روس جو دنیا کی دوسری ایٹمی طاقت تھا ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا اور روس سے 6 وسطی ایشیائی ریاستیں بھی علٰیحدہ ہوگئیں تھیں اور روس میں سخت اقتصادی بحران کی وجہ سے فوجیوں کو تنخواہ تک ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا اور 6 ماہ کی تنخواہ کے بجائے فوجیوں کو تربوز پکڑائے گئے تھے جن کی تصاویر پوری دنیا میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں جاری کی گئی تھیں۔ روس کو دوبارہ معاشی طور پر مستحکم کرنے میں یورپین ممالک کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ روس کے پاس تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں جن کی وجہ سے بحیرۂ کیسپین میں بڑے تیل کے ذخائر کی موجودگی دریافت ہوئی ہے اور اب روس مزید طاقتور ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے سندھ، بلوچستان، پختونخوا اور شمالی وزیرستان میں نہ صرف تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں بلکہ گیس، سونا، چاندی، جپسم، کوئلہ، ہیرے جواہرات، ریکوڈک اور سیندک میں کاپر دریافت ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی کرپٹ سول بیوروکریسی جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک کے قرضوں سمیت اسٹیٹ بینک کے قرضوں سے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت اور ڈوبتی چلی جائے گی اور رہی سہی کسر بھارت کی آبی جارحیت نے پوری کر دی ہے اور پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت اسے روانڈا نہ بنا دے۔
پاکستان کی معیشت کو مزید تباہ و برباد کرنے میں موجودہ حکومت کے نااہل وزراء اور کرپٹ افراد نے کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس دور میں معیشت کا بہت برا حال ہے۔ بھارت نے پرویز مشرف کی حماقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کشمیر اور کارگل کے مقام پر بڑے چھوٹے 35 ڈیمز بنا کر پاکستان کا سارا پانی دلی اور راجستھان لے گیا ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کو نہ روکنے کی وجہ سے آج پاکستان کی زراعت مکمل طور پر ڈوبی ہوئی ہے پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کا سنگین بحران ہے۔ پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتا مافیا کی وجہ سے 22 ہزار سے زیادہ کارخانہ دار سخت پریشان ہیں اور ڈالر کی اونچی اُڑان سے سرمایہ کاروں کے ایک کھرب 78 ارب روپے ڈوب گئے تھے۔ پاکستان پر دہشت گردی کا سنگین الزام ہے پاکستان کی ایکسپورٹ میں مسلسل خسارہ ہو رہا ہے۔ زراعت فیل ہے بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور صنعتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کافی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے نت نئے ٹیکس اور آئی ایم ایف کے اشارے پر بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا تھا ملک کا ہر شخص مع معصوم بچوں کے تین لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض دار ہے اور 15 دِن میں ایک ارب ڈالرز خرچ ہو جاتے ہیں اور غیر ملکی قرضوں کی بھرمار ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 15 ماہ میں 3,400 ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ لے لیا ہے اور مصنوعی طور پر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو جون 2020ء تک روکا ہے اور 2020-21ء کے بجٹ میں پچھلی ساری کسر نکال دی جائے گی۔ مہنگائی کا سونامی پاکستانی عوام اور معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں وفاقی حکومت کے حاضر ملازمین، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں کچومر نکل گیا ہے۔
ملکی معیشت بُری طرح ناکام ہو چکی ہے اور موجودہ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ معیشت بالکل ڈوب چکی ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے جان بوجھ کر روپے کی قیمت گرائی ہے۔ سابقہ دور میں ڈالر 123 روپے کا تھا اس وقت امریکی ڈالر 160.35 روپے کا ہے ڈالر کی اونچی اُڑان سے سرمایہ داروں کے کھربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے دو سال میں 26 ارب 20 کروڑ ڈالرز قرض لیا ہے جبکہ کل برامدات 3 ارب 75 کروڑ ڈالرز کی ہے۔ بجلی، گیس، آٹا، چینی، ڈالر، پٹرول اور دوائوں سمیت سب چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ 2019-20ء میں جی ڈی پی میں شدید کمی ہوئی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں 8.5 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ 2020ء میں جی ڈی پی 4.5 فی صد ہو گئی ہے۔ اقتصادی اور معاشی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
وفاقی وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہو رہے ہیں مقبوضہ کشمیر پر وزارت خارجہ کی ناقص کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر پاکستان کی معیشت کی تباہی و بربادی کے ذمے دار ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ ان دونوں کو برطرف کرکے اہل اور لائق افراد کو تعینات کرکے معیشت کے استحکام کے لیے ازسرنو پالیسیاں ترتیب دی جائیں ورنہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت اسے روانڈا بنا دے گی جہاں روٹیوں کے پیچھے 10 لاکھ سے زیادہ افراد قتل ہو گئے تھے۔