ایک بھولی بسری یاد

973

یہ 49 سال پرانی بات ہے، نئی نسل کو تو شاید علم ہی نہ ہو، وہ 16؍دسمبر 1971 کا دن تھا۔ ہماری قومی تاریخ کا انتہائی ذلت آمیز دن۔ بھارت کی فوج سولہ دسمبر کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی ڈھاکا میں داخل ہوچکی تھی۔ وہ اس وقت تک مشرقی پاکستان تھا، تاہم چند گھنٹوں بعد ہی بنگلا دیش بن گیا۔ بھارت کی مسلسل بمباری سے تباہ شدہ ڈھاکا ائرپورٹ پر بھارت کے فوجی افسر اپنے چیف کمانڈر کے منتظرتھے۔ تھوڑی ہی دیر میں بھارتی فوج کا جنرل جگجیت سنگھ اروڑا ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈھاکا پہنچا۔ اس سے پاک فوج کے مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل اے اے کے نیازی نے بہت ندامت کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جنرل نیازی کے ساتھ ان کے اسٹاف افسران بھی تھے۔ چاروں طرف تباہی کے آثار بکھرے پڑے تھے ہوائی اڈہ قبرستان نظر آتا تھا سنسان اور ویران، ہر اعتبار سے ویران۔ جنرل اروڑا کے چہرے کی طرح اس کی یونیفارم بھی تروتازہ نظر آتی تھی اور اس کے سینے پر مختلف تمغوں کی تین قطاریں سجی تھیں۔ جنرل نیازی اپنی چھٹری پر قدرے جھکے ہوئے تھے دونوں جرنیلوں کے رینک یکساں، مگر ان کی اس وقت کی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق تھا، ایک فاتح اور دوسر ا مفتوح۔۔۔ شیورلیٹ کار ہیلی کاپٹر کے قریب ہی کھڑی تھی دونوں جرنیل اس میں سوار ہوکر ریس کورس میدان کی طرف روانہ ہوگئے۔
صبح کے نو بج کر دس منٹ ہوچکے تھے، بھارتی کمانڈر نے ہتھیار ڈالنے کا جو الٹی میٹم دیا تھا، اس کے ختم ہونے میں صرف چند منٹ باقی تھے دونوں ملکوں کے مقامی کمانڈروں کو ایک معاہدہ پر دستخط کرنا تھے۔ جب وہ ریس کورس گراؤنڈ پہنچے تو بھارتی فوج نے چاروں طرف سے ریس کورس کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور میدان میں ہزاروں بنگالی موجود تھے، جو پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا تماشا دیکھنے آئے تھے۔ میدان کے بالکل درمیان لکڑی کی سادہ سی میز رکھی تھی جس کے دونوں طرف بھارتی فوجی قطار میں کھڑے تھے۔ میز کے گرد پہلے جنرل اروڑا بیٹھا اور اس کے برابر جنرل نیازی کو بٹھایا گیا وہ خاموش اور قدرے افسردہ تھے۔ اسی دوران اخبارات اور ٹیلی ویژن کے کیمرے حرکت میں آگئے اور وہ سلسلہ پانچ سے سات منٹ تک جاری رہا۔ جنرل نیازی اس وقت زبردست کشمکش سے دوچار تھے، وہ جذبات سے آخری جنگ میں مصروف تھے کیونکہ وہ ان کی زندگی کا سب سے ذلت آمیز لمحہ تھا۔ مسودہ میز پر رکھا تھا، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھا اور ان کے قلم نے مسودے پر دستخط ثبت کردیے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا قومی پرچم ڈھاکا کی سرزمین پر سرنگوں ہوگیا۔ جنرل نیازی نے اپنا ریوالور نکالا اور گولیوں سے خالی کرکے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیا جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سرعام اتارے جانے لگے ان کا چہرہ گہرے سمندر کی طرح ساکت تھا۔ ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آئے جسے بھارتی فوجیوں نے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ قصاب، بھیڑیے اور قاتل کا شور بلند ہوا، جنرل نیازی کسی ہارے ہوئے شخص کی طرح خاموش رہے، وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
افسوس، یہ رسوائی، بے بسی اور بے چارگی اور ہزیمت ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ زخم وقت بھی مندمل نہیں کرسکا۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی اتنی ذلت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ہماری نوے ہزار فوج کو بھارت نے جنگی قیدی بنالیا تھا۔ اسی دن شام پانچ بجے ریڈیو پاکستان نے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ بھارتی افواج ڈھاکا میں داخل ہوگئی ہے۔ 22؍نومبر 1971کو بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اور 3؍دسمبر کو مغربی پاکستان پر۔ 14؍دسمبر کو مشرقی پاکستان میں ہماری ’’بہادر فوج کے شیردل سپہ سالار‘‘ جنرل اے اے کے نیازی نے یہ ایمان افروز اعلان کیا کہ دشمن میرے سینے پر ٹینک گزار کرہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتا ہے پاک فوج ہتھیار نہیں ڈالے گی، بلکہ باوقار موت کو ترجیح دے کر کٹ مرے گی۔ لیکن دو دن بعد ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے، کیوں ؟؟ 15؍دسمبر کو ہماری فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل اے رحیم نے اعلان کیا کہ جنگ بندی پاکستان کی شرائط پر ہوگی۔ لیکن اگلے ہی روز سقوط ڈھاکا کی روح فرسا خبر ملی۔ کیا ائر مارشل رحیم اگلے روز ہونے والی کارروائی سے لاعلم تھے؟16؍دسمبر کو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے ایک محاذ سے پیچھے ہٹ جانے کے مبہم اعتراف کے ساتھ پرجوش اعلان کیا کہ دشمن کو ارضِ وطن سے مار بھگانے تک جنگ جاری رہے گی اور اگلے ہی روز مغربی محاذ پر بھی بھارت کی پیشکش پر غیرمشروط جنگ بندی کیوں قبول کرلی؟ جس وقت ڈھاکا میں ہماری مسلح افواج نے ہتھیار ڈالے، اس سے چند گھنٹوں قبل نیویارک میں ذوالفقار علی بھٹو نے ہزار سال تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا، آخر کیوں؟ ہماری بہادر مسلح افواج اور عوام نے اس جنگ کو حقیقی جنگ کے طور پر جان کی بازی لگا کر لڑا۔ مگر جنگ حقیقی انجام سے قبل ہی روک دی گئی۔ کیا وہ جنگ حقیقی تھی یا مشرقی پاکستان گنوانے کے لیے محض مصنوعی جنگ تھی؟ مشرقی پاکستان سے ہماری فوج کے انخلا کی ضمانت لیے بغیر جنگ بندی کیسے قبول کرلی گئی۔ اس فوج کو واپس لانے کے کیا انتظامات کیے گئے تھے؟ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے تین دن بعد ہی یعنی 19؍دسمبر کو صدر یحییٰ خان مستعفی ہوگئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو، جن کی پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی، فوری طور پر نیویارک سے بلوایا گیا اور انہوں نے اگلے ہی روز یعنی 20؍دسمبر کو نئے صدر اور ملک کے پہلے اور آخری سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے جسٹس حمود الرحمن کی قیادت میں اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جس کی رپورٹ چند ماہ بعد بھٹو صاحب کو پیش کردی گئی۔ لیکن وہ برسوں تک منظر عام پر نہ آسکی۔ سقوط مشرقی پاکستان کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کو اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجوداس کے عوام کو کبھی حق ِ حکمرانی نہیں دیا گیا۔