پاکستان کے دولخت ہونے کی اصل وجہ! – سراج الحق

1062

نصف صدی میں پاکستان کے ٹوٹنے اور دولخت ہونے کی بہت سی وجوہات اور اسباب سامنے آچکے ہیں،بہت سے حقائق بے نقاب ہوچکے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو توڑنے کی سازش کے پیچھے بہت سے چہروں پر سے پردہ اتر چکا ہے۔ شاید رہتی دنیا تک بہت سے حقائق اور بھی سامنے آئیں گے مگر کچھ عرصہ قبل ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی ہے۔
آئی بی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احسان غنی نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو دیے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں جس حقیقت کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کوئی ایسا الیکشن نہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ایک رول پلے نہیں کیا۔ ’’70‘‘ کے انتخابات جو سمجھے جاتے ہیں کہ بڑے شفاف تھے ان میں انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ جماعت اسلامی ملک بھر خصوصاً مغربی پاکستان میں کلین سویپ کررہی تھی، ہمیں ہر طرف سے خبریں موصول ہورہی تھیں کہ جماعت اسلامی ہر جگہ بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے۔ رپورٹس یہ بھی تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جو چھ نشستوں سے الیکشن لڑرہے تھے وہ صرف لاڑکانہ کی سیٹ جیت سکیں گے، باقی ہر جگہ ہاریں گے۔ یہ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ تھی کیونکہ اس وقت آئی ایس آئی کا تو ان چیزوں میں کوئی رول نہیں تھا۔ مطیع اللہ جان کا سوال تھا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے 25جولائی 2018 کے انتخابات میں پولیٹیکل انجینئرنگ کی جس پر احسان غنی نے کہا کہ وہ کون سا الیکشن تھا جس میں اسٹیبلشمنٹکا رول نہیں تھا‘‘۔
بانی ٔ جماعت اسلامی اور مستقبل پرگہری نظر رکھنے والے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے لاہور کے سنت نگر گرائونڈ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’اگر مشرقی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی علاقائی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوئیں تو پاکستان کو فوج سمیت کوئی طاقت بھی متحد نہیں رکھ سکے گی‘‘۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کو اس دور کے سیاسی و علاقائی حالات پر نظر رکھنے والا آسانی سے سمجھ سکتا تھا مگر افسوس کہ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے ادارے بھی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے مصلحتوں کا شکار رہے۔ دشمن کی سازشوں کے بنے ہوئے جال کو توڑنے اور ملکی سلامتی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے دیکھتے ہی دیکھتے ملک دو لخت ہوگیا۔ سب سے ذلت آمیز لمحہ ہتھیار ڈالنے کا تھا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے کروڑوں محب وطن عوام کی آنکھیں بہہ نکلیں، لاکھوں لوگ دھاڑیں مار کر روتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹتا دیکھ رہے تھے جس کے لیے ان کے بڑوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے، لاکھوں مائو ں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئی تھیں، کروڑوں لوگوں کے لٹے پٹے قافلے پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرکے خالی ہاتھ بے سروسامانی کی حالت ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ ملک کی 73سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پاکستان کے اساسی نظریے سے انحراف کرنے والوں کوچن چن کر بار بار اقتدار پر مسلط کیا گیا۔ ان نااہل اور نظریہ پاکستان سے بے وفائی کرنے والوں کی وجہ سے پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا۔ 21سال قبل ایک ٹھوس نظریے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی دنیا کی سب سے بڑی مملکت دولخت ہوگئی۔
تاریخ ہمیں آج بھی جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں اور سقوط ڈھاکا پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کے بجائے ان تلخ حقائق کا جائرہ لیں جن جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا۔ بلا شبہ بہت سے مسائل نے پاکستان بنتے ہی سر اٹھا لیا تھا، ضرورت تھی کہ ان مسائل کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ حل کیا جاتا اور مشرقی پاکستان کے عوام کی شکایت پر کان دھرا جاتا مگر حکمرانی اور اقتدار کے نشے میں مدہوش انگریز کے غلاموں نے کبھی ان اسباب کی بیخ کنی کی طرف توجہ نہیں دی جو بڑی سرعت کے ساتھ سر اٹھا رہے تھے۔ مسلسل وعدہ خلافیوں پر مشرقی پاکستان میں وہ طوفان اٹھا کہ جس کو دبانے کے لیے نہایت عجلت میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے ہمارے اپنے ہم سے دور ہوگئے اور آخر وہ وقت آگیا جب ہمارا ازلی دشمن ہمارے بازو کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان کو بچانے اور بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے والوں کو آج پھانسیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔
سقوط ڈھاکا اتنا بڑا سانحہ ہے کہ صدیوں ہم اس پر روتے دھوتے اور آنسوں بہاتے رہیں اس کا دردکبھی کم نہیں ہوگا۔ آج کی نئی نسل کو شاید معلوم بھی نہیں کہ کبھی بنگلادیش بھی ہمارا حصہ تھا۔ مسجدوں کا شہر ڈھاکا، پٹ سن کے ریشے والا سونار بنگلا، سبزے کی وسعتوں، دریاؤں کی کثرت، گہری جھیلوں، گھنے جنگلوں کی چھاؤں والی سرزمین کبھی پاکستان تھی۔ ایک پاکستان تھا… دو کیسے گئے۔ یہ سانحہ کسی ریفرنڈم سے نہیں۔ بھارت کی پانچ لاکھ فوج کے ذریعہ ہوا۔ پاکستان کے خلاف تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی ہوئی، اور بھارت نے عالمی سرحدوں اور قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پہلے مکتی باہنی اور پھر براہ راست فوج پاکستان میں داخل کیا۔
بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے بزرگوں کو پاکستان سے محبت اور وفاداری اور فوج کی مدد کرنے کے الزام میں آج تک تختۂ دار پر لٹکایا جارہا ہے، ہزاروں ایسے کارکن بھی جیلوں میں ہیں جو 71 کے اس سانحہ کے بعد پیدا ہوئے۔ مودی نے ڈھاکا کے دورے پر بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ بنگلا دیش بنانے اور پاکستان کو توڑنے کے لیے آنے والے بھارتی جتھوں میں وہ بھی شامل تھے۔ نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اس برملا اظہار کے باوجود ہماری حکومت عالمی سطح پر موثر طریقے سے آواز نہیں اٹھا سکی۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس پر قبضہ جمالیا مگر کشمیر یوں کے وکیل بننے کے دعویدار وزیر اعظم نے اس پر بھی چپ سادھ رکھی ہے۔
یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کے تحفظ، تقدس اور بقا کا معاملہ ہے۔ ملکی سا لمیت کا معاملہ ہے۔ مشرقی پاکستان کی وہ سرزمین جہاںکے مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور مصیبتوں اور پریشانیوںکو برداشت کیا، سب سے پہلے متحد ہو کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا‘ آج ہم اپنے ان ہم وطنوں کی تاریخ انسانی کی ناقابل فراموش قربانیوں کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مادر وطن کی حفاظت اور سلامتی کی جنگ لڑنے والوں کو نہ صرف ہم نے بھلا دیا ہے بلکہ ان کے ناحق قتل اور پھانسیوں پر لٹکائے جانے پر بھی ہم اپنے ہونٹوں کو سی کر بیٹھے رہے۔
نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرنے والوں نے آج ملکی حالات کو ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک انجانا خوف اور خدشات سراٹھانے لگے ہیں۔ قومی وحدت اور یکجہتی مفقود ہے، بلوچستان میں بھارتی سازشیں اور تخریب کاری کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں، ہمارے ذمے دار حلقوں کی طرف سے یہ بیان تو دیے جاتے ہیں کی بھارت پاکستان کے خلاف ہائی برڈ وار جاری رکھے ہوئے ہے مگر اس کا راستہ روکنے کے لیے کیا ہونا چاہیے اور کیا کیا جارہا ہے اس طرف کسی کی نظر نہیں۔
حادثہ اس وقت سانحہ میں تبدیل ہوتا ہے جب اس سے عبرت حاصل نہ کی جائے، حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں جھانک کر مستقبل کے لیے منصوبہ سازی ہو، پاکستان کے محروم علاقوں کی محرومیوں کو ختم کیا جائے۔ احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے، قومی دولت اور وسائل جن پر دو فی صد اشرافیہ کا قبضہ ہے ان کی تقسیم کو انصاف کے مطابق یقینی بنایا جائے اور سب کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ ہر جگہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ہو، عوام کی آواز کو طاقت سے دبانے کے بجائے یا غدارکا ٹھپا لگا کر نکالنے کے بجائے ان کی آوازسنی جائے۔