کورنا کی دوسری لہر زیادہ ہلاکت خیز اور نظام زندگی متاثر کرسکتی ہے

486

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) کورونا کی دوسری لہر سے ہر طبقے خصوصاً نوجوان بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں‘ دوسری لہر اب تک پہلی لہر سے کہیں زیادہ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد میں روزانہ نمایاں اضافہ ہو رہا ہے‘ دوسری لہر کے دوران کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح، شرح ِاموات اور اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان، آغا خان یونیورسٹی کے نیورو لوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، سوسائٹی آف آبسٹریشین اینڈ گائنا کولوجسٹس آف پاکستان کے سابق صدر و معروف گائنالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنیٹر اور ایس بی بی یو لا ڑکانہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر چنا نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر شدت اختیار کرچکی ہے‘ یہ وائرس ہر شعبہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے‘ دوسری لہر اب تک پہلی لہر سے کہیں زیادہ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد میں روزانہ نمایاں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ کورونا وائرس کی دوسری لہر بتدریج پریشان کن اور گھمبیر ہوتی جا رہی ہے‘ ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح، شرح ِاموات اور اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وبا معیشت، تعلیمی نظام اور دیگر شعبوں پراثرڈال سکتی ہے اوریہ وبا ایسی نہیں کہ اسے روکا نہ جا سکے یا کم نہ کیا جا سکے۔اْ نہوں نے کہا کہ وا ئرس کے پھیلا ئوکو روکنے کے لیے دیرپااقدامات اٹھانا وقت کا تقاضا ہے ورنہ حالات خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے ویکسین کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں ویکسین اگلے سال جنوری اور مارچ کے درمیان تک دستیاب ہوگی اور پہلے طبی عملے اور معمر شہریوں کو لگائی جائے گی۔اپنی ترجیحی فہرست تیار کر کے ہم کورونا ویکسین حاصل کرنے کے لیے چین، روس اور کچھ اور ملکوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے 190 سے زاید کورونا سے متاثرہ ممالک کورونا ویکسین کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کا بہترین علاج اب بھی ماسک اور بچائو کے قواعد و ضوابط (ایس او پیز) پر عمل کرناہیں۔زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہر ایک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہم ایک ہنگامی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ کورونا کی روک تھام کے لیے ایس او پیز پر عمل درآمد آسان ہے، شہری ایس و پیز پر عملدرآمد پر توجہ دیں۔ عوام گھر سے نکلتے وقت ماسک لگائیں اور ہجوم والی جگہ نہ جائیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے نیورو لوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے کہا کہ کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافے اور اس سے ہونے والی اموات نے ایک بار پھر حکومتی و انتظامی حلقوں کے ساتھ دیگر افراد کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ کورونا وائرس سے وبائی مرض کے پھیلنے کا سلسلہ بدستورجاری ہے اور یہ وائرس مارچ تک رہنے کا امکان ہے، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد ہونے والی ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے والے انسان کے اندر 5 مہینے بعد بھی وائرس دماغ میں موجودرہتا ہے اور وہ ختم نہیں ہوتاہے ہاں وائرس کی صلاحیت آہستہ آہستہ کم ہو نا شروع ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس ختم ہونے کے باوجود مریضوں میں ڈیپریشن کے مسائل کافی دیر تک رہتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کو رونا وائرس ختم ہوگیا ہے یا گزر گیا ہے یا وائرس کا پی سی آر ٹیسٹ منفی ہو گیاہے ہم اب صحت مند ہو گئے ہیں لیکن ان کو پتا ہونا چاہیے کہ وائرس ان کے گلے میں سے تو ختم ہوجاتا ہے لیکن جسم کے دیگر حصوں میں موجود رہتا ہے،اس حوالے سے کافی شواہد موجود ہیں کہ وائرس آپ کے جسم میں موجود ہوتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہے کہ25سے 30فیصد ایسے افراد جن کو کوورنا وائرس ہوااور وہ ٹھیک ہوگئے ہیں گلے کا انفیکشن بھی ٹھیک ہو گیاہے لیکن ان افراد میں نیورو لوجیکل، آنتوں کے مسائل، ڈیپریشن ،چڑ چڑا پن،پٹھوں میں درد اور دیگر بیماریاں موجود رہتی ہے،اور ان کو روز مرہ زندگی میں مسائل کا سامنا رہتا ہے،ڈاکٹر واسع نے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی پہلی ریسرچ کے مطابق کورونا وائرس ختم ہونے کے باوجود3سال تک اس کی علامات جسم میں موجود رہتی ہیں، کورونا وائرس کے مریضوں کے پوسٹ مارٹم سے ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ وائرس ختم ہونے کے بعد بھی جسم ،دماغ اور اعصاب کے اندر بیماری موجود رہتی ہے اس وائرس کے بارے میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ وائرس صرف گلے اور پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس وائرس کے اثرات لمبے عرصے تک جسم کے مختلف حصوں پرکا فی دیر تک رہتے ہیں،اس وائرس کے حوالے سے مزید معلومات اور ریسرچ کی ضرورت ہے کہ وائرس سے مزید کیا کیا بیماریاں ہوسکتی ہیں اور کتنے عرصے تک اس کے اثرات جسم میں موجود رہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ سب اہم بات یہ ہے کہ جس کو کورونا وائرس ہوگیا ہے اس کو کوورنا وائرس دوبارہ نہیں ہوگا یہ تاثر غلط ہے یہ دوبارہ اور زیادہ شدت کے ساتھ ہو سکتا ہے اور کو رونا وائرس کی وجہ سے سال2سال میں مزید مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ وائرس دنیا میں مزید 2سے 3سال رہے گا اور لوگوںکو متاثر کرتا رہے گا،اس کے لیے لوگوں کو مستقل احتیا ط رکھنی پڑے گی، جب لگے کہ کورونا وائرس ختم ہو گیا ہے پھر بھی یہ وائرس ختم نہیں ہوگا اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور اس سے بچنے کے لیے اقدامات کر نا چاہیے تا کہ ہم اپنے اور اپنے پیاروں کو اس وائرس سے بچا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے اب ویکسین کے آنے کی امید بن گئی ہے لگ رہا ہے کہ آئندہ سال اپریل ،مئی میں پاکستان میں ویکسین دستیاب ہوجائے گی اور یہ ویکسین ہائی رسک مریضوں کو یہ لگ جائے تو سمجھ لیں کہ کورونا کے حوالے سے پاکستان میں مرنے والوں کی تعداد میں کمی آئے گی اور کورونا وائرس کا اثر ختم ہوتا جائے گا۔ یقینا جہاں تک وائرل انفیکشن کا تعلق ہے تو کورونا وائرس دنیا میں رہے گایہ بالکل ختم نہیں ہوگا اور اسے لوگ متاثر بھی ہونگے اور تندرست بھی ہوتے رہینگے جس طرح سے اور بہت سارے وائرس موجود ہیں لیکن جتنا کورونا وائرس کا خوف ہے وہ کسی حد تک کم ہوجائے گا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ،سوسائٹی آف آبسٹریشین اینڈ گائنا کولوجسٹس آف پاکستان کے سابق صدر اورمعروف گائنالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے اور اِس کی وجہ سے ہونے والی اموات نے ایک بار پھرحکومتی اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔انہوں نے کورونا وائرس کی دوسری لہر کو پہلی سے زیادہ خطرناک قرار د دیتے ہوئے کہا کہ کورونا کی پہلی لہر سے بزرگ یا دیگر امراض میں مبتلا افراد زیادہ متاثر ہوئے تھے۔لیکن کورونا کی دوسری لہر سے ہر طبقہ خصوصاً نوجوان بھی بڑی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری لہر میں پاکستان میں رہنے والے خاندان کا ہر دوسرا فرد کورونا وائرس سے متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان میں 160سے زایدڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا سے جان بحق ہوچکے ہیں۔ میرے بچپن اور اسکول کے دوست ڈاکٹر یوسف پنجہ اور ڈاکٹر کرنل رضوان شاہد بھی کورونا سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہم تو بہت زیادہ پریشان ہیں جس طرح بڑی تعداد میں لوگ کورونا سے ہلاک ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ خواتین ڈاکٹزز کی بڑی تعداد کورونا وائرس سے متاثر ہورہیں ہیں۔جبکہ پہلی لہر میں دی گئی دوائیں اب دیر سے اثر کر رہی ہیں۔پہلی لہر میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کے لیے کووڈ19 پی سی آر کو موثر ٹیسٹ قرار دیا گیا تھا جبکہ دوسری لہر میں علامات والے مریضوں میں بھی ٹیسٹ کی تشخیص نہیں ہوپاتی ہے۔ا نہوں نے کہا کہ وبائی مرض کی علامات ہونے کے باوجود پی سی آر میں کورونا کی تشخیص نہ ہونا خطرناک ہے، جس کی 2 وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس اپنی شکل بدل رہا ہے، جو کسی بھی وائرس کی خاصیت ہوتی ہے اور پی سی آر ٹیسٹ اس تبدیلی کی نشاندہی نہیں کر پا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر میں 2 تا 3 ہفتے بعد وائرس کی تشخیص ہورہی ہے۔انہوںنے کہا کہ لوگوں کی کورونا سے آگہی اور علامات ظاہر ہونے پر خود کو قرنطینہ کرنا خوش آئند ہے۔امید ہے کہ مارچ 2021ء کے آخر تک پاکستان میں کورونا ویکسین دستیاب ہوگی۔جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنیٹر اور ایس بی بی یولا ڑکانہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر غلام اصغر چنا نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر انتہائی شدت کے ساتھ آئی ہے۔ جو ٹیسٹ اپریل مئی میں ہورہے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں بہت زیادہ کورونا کے ٹیسٹ ہورہے ہیں جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر شدت کے ساتھ لوگوں پر اثر انداز ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسین آنے کے بعد 90 فیصد مریضوں کا علاج اور زندگی گزارنا تھوڑا آسان ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین کے ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں لیکن کم ہونگے۔ لوگوں کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اگر احتیاط نہیں کریں گے تو کورونا وائرس پاکستان میں گھمبیر صورتحال اختیار کرسکتاہے۔