سترہ ہزار پانچ سو روپے

365

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
کم از کم تنخواہ بورڈ سندھ کے چیئرمین زاہد حسین نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے اور ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے کہ سندھ کے اندر غیر ہنر مند مزدوروں کی کم از کم تنخوا ہ پندرہ ہزار ہوگی۔۔۔ معاف کیجیے گا! سترہ ہزار پانچ سو روپے سالانہ ہوگی پھر ایک بار معذرت ماہانہ ہوگی۔ قارئین کرام آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بار بار معذرت کیسی؟
بات یہ ہے کہ پرسکون ماحول میں ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صوبے اور میں ذرا آگے ملک کی رعایا کی بات کروں گا ان کی تنخواہوں اور ملک میں بننے والے بجٹ کی بات کروں گا۔ تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ الفاظ کو سپرد قلم و قرطاس کرنے میں عاجز کیوں اتنی غلطی کررہا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم۔۔۔ اچھا ذرا درمیان میں یاد آیا کہ وزیر کا مطلب شاید یہ ہوتا ہے اردو میں۔۔۔ بوجھ اٹھانے والا اور وزیر اعظم کا مطلب ہوا بوجھ اٹھانے والوں کا بڑا ذمے دار۔ جب وزیر اعظم صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا 20000 ہزار روپے ماہانہ پر گزارا نہیں ہوتا ارے معاف کیجیے گا ایک صفر کم ہوگیا 200000 (دولاکھ) روپے میں گزارا نہیں ہوتا۔ اور پھر اسی طرح سے قیاس کر لیجیے ایک صدر پاکستان۔۔۔ ارے یاد آیا صدر پاکستان صاحب سے کسی نے آٹے کے بحران کی بات کی تو انہوں سے معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔۔۔ مگر ان کو جلد ہی اپنی بھولے پن کا خیال آیا کہ غلطی کرگیا سیاسی بیان اس طرح تھوڑ ی دیتے ہیں بھائی! فوراً کہا کہ مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا۔ مگر مجھے معلوم نہیں۔ ہاں! تو ہم بات کررہے تھے کہ قیاس کرلیجیے کہ صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور دیگر وزیر ان کے مشیر اور ان کے دیگر قوال و ہمنوا کی تنخواہیں۔ آخر جب وزیر اعظم صاحب کہ رہے ہیں کہ دولاکھ میں میرا گزارا نہیں ہورہا تو یہ بات تو طے ہے کہ دیگر وزرائِ مملکت کی تنخواہیں کم ہی ہوںگی۔ اکثر گھروں میں جب کم تنخواہ اور اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے مہینے کے آخر میں کھینچا تانی ہوتی ہے اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور نئی تنخواہ کے ملنے سے پہلے تک کے دن کاٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی سے ادھار لینا پڑتا ہے۔ شاید ہمارے امراء و حکام کے گھروں میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوتی ہوگی۔ کسی سے ادھار لے کر باقی کے دن گزارتے ہوں گے۔
یہ تو اس ملک کے صدر، وزیر اور ان کے ہمنواؤں کی داستان غم ہے مگر جو لوگ منہ اندھیرے گھروں سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں، جو بیلچے اور پھاوڑے تھامے کسی چوک اور چوراہوں میں اپنے لیے روزی کے انتظار میں جا بیٹھتے ہیں اور اگر مزدوری مل گئی تو شام کو گھر آتے ہوئے آٹا، تیل، چینی اور سبزی لے کر گھر لوٹتے ہیں اور روزانہ کنواں کھودنے اور پانی حاصل کرنے کے مصداق اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکا دیتے ہیں۔ اور دوسرا پہلو اگر شام تک کوئی مزدوری نہ ملی تو گھر واپسی پر ہزاروں فکر اور اندیشے لیے گھروں کو لوٹنا جہاں آنکھوں میں خواب لیے بیوی بچوں کا انتظار کہ بابا کچھ کھانے کے لیے لائے گا اور چھوٹی منی کہے گی بابا! میری مس ناراض ہوں گی کل فیس دینی ہے! یہاں ان گلابوں کا ذکر بھی کرنا مجھ پر قرض ہے جو کچرے کے ڈھیر سے اپنے لیے رزق تلاش کرتے ہیں اور پھر ان کا بھی ذکر ہوجائے جن کے گھوڑے بادام اور کتے پلاؤ کھاتے ہیں۔
اوپر ذکر ہوا نوٹیفکیشن کا اور ان کمروں کا جن میں بیٹھ کر یہ خوبصور ت خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ بجٹ جو اس قوم کے لیے تیار ہوتا ہے ان ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بجٹ تیار کرنے والوں کو ٹماٹر سترہ روپے کلو ملتے ہیں اور جن کا سفر بذریعہ ہیلی کاپٹر پچاس سے ساٹھ روپے کا ہوتا ہے معاف کیجیے گا پچپن روپے کا ہوتا ہے۔
جہاں یہ سب کچھ ہے وہاں یہ بھی المیہ ہے کہ گزشتہ دنوں سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف نے احتجاجوں کا سلسلہ شروع کیا ان کا مطالبہ تھا کہ کورونا وبا کے موقع جن ڈاکٹروں اور نرسنگ عملے نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی خدمات انجام دی تھیں تو ان سے حکومت سندھ نے رسک الاؤنس کا وعدہ کیا تھا وہ ادا کیا جائے خیر کئی احتجاجوں کے بعد یہ اعلان ہوگیا کہ الاؤنس ادا کردیا جائے گا اس کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں اور اس کے عملے کو
بھی بیدار ہونا پڑا کیونکہ یہ بھی وبائی صوتحال میں اپنے فرائض اپنی جان پر کھیل کر انجام دیتے رہے ہیں۔ خیر کئی احتجاجوں کے بعد حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے اور بھی مطالبات تھے جو تسلیم ہوئے اور کچھ ابھی زیر غور ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ایسے بھی ملازمین بھرتی کیے جاتے ہیں جو تھرڈ پارٹی اور ٹھیکیداری نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت بھرتی کیے جانے والے ملازمین سے متعلق بھی کچھ مطالبات منظور کرلیے گئے اور ان کے بھی واجبات ادا کردیے گئے۔ مگر وہ ملازمین جو تھرڈ پارٹی والے کہلاتے ہیں۔ جو سال ہا سال سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں اور کورونا کی وبا کے دوران بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار ہے جو حاضری کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ کسی قسم کی صحت کی سہولت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور برسوں سے اتنی ہی تنخواہ پر اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کررہے ہیں۔ ان کی ملازمت ایک کچّے دھاگے سے بھی کمزور ہے کسی بھی وقت ایک جھونکا ہوا کا ان کی سال ہا سال کی ملازمت کو ختم کرسکتا ہے۔ بات ہورہی تھی مینیمم ویجز بورڈ کے چیئرمین زاہد حسین کیمپو یعنی کم ازکم تنخواہ کے بورڈ کے سربراہ کی، شاید ان کو اس بات کا علم ہو کہ نہ ہو کہ ایسے ملازمین بھی اس شہر کے سرکاری اداروں میں پائے جاتے ہیں اگر وہ ان پرسکون ائر کنڈیشنڈ کمروں سے باہر آکر نوٹیفکیشن جاری کریں اور ان پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کریں۔