خواہشات اور ضروریات کے درمیان فرق ختم ہوگیا ، کامیابی کا معیار دولت بن گیا

808

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) موجودہ دور کا یہ مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف دنیاوی طور پر کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں‘سرمایہ دارانہ نظام کی حاکمیت اور اس کے نتیجے میں بننے والے کارپوریٹ کلچر میں کامیابی کا معیار دولت اور طاقت و اختیار ہے ناکہ انسان کے اوصاف حمیدہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشرے میںمسابقت کی دوڑ نے انسانی خصوصیات کے بجائے انسانی حاصلات کو اپنی منزل اور ہدف بنا رکھا ہے‘ زمانے کی چالاکی اور مکاری نے ہر چیزکو ہر ایک کی ضرورت بنا کر پیش کردیا‘ اس کی اس مہارت نے خواہشات اور ضروریات کے درمیان فرق کو ختم کر دیا‘ زندگی کے اعلیٰ ترین اہداف کو پسِ پشت ڈال کر صرف رہن سہن کے عادات واطوار کو ہی اصل زندگی سمجھ لینے سے انسانی معاشرہ تباہی کا شکار ہوتا جا رہا ہے‘ بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ اب آخرت کی فکر اور اپنی اولاد کو مسلم امہ کا مجاہد بنانے کی تڑپ اور آرزو ختم ہو چکی ہے۔ ان خیا لات کا اظہار جماعت اسلامی یوتھ کراچی کی نگراں عذرا سلیم صاحبہ، آل سندھ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید حیدر علی، 13 سال سے لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کے تحت یوتھ کی تربیت کے کام کا تجربہ رکھنے والے اور کتاب کے مصنف نثار موسیٰ اور سندھ پروفیسرز لیکچرارز ایسوسی ایشن کراچی کے صدر اسسٹنٹ پروفیسر منور عباس نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عذرا سلیم صاحبہ کا کہنا تھا کہ اس دور کا یہ مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف دنیاوی طور پر کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے ایسے تعلیمی اداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں تعلیمی نظام تو شاید بہت اچھا ہو لیکن چاہے وہاں کا تربیتی نظام اور مذہبی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہو۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ اب آخرت کی فکر اور اپنی اولاد کو مسلم امہ کا مجاہد بنانے کی تڑپ اور آرزو ختم ہو چکی ہے‘ ہم دراصل اپنے بچوں کی اہمیت کو دنیاوی پیمانوں پر ناپتے ہیں‘ دنیا نے کامیابی کے جو معیارات سیٹ کردیے ہیں‘ ہم سب اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اسی ریس میں لگایا ہوا ہے‘جب تک کامیابی کے یہ سطحی معیارات ختم نہیں ہوں گے‘ ہم سب اسی طرح لاحاصل دوڑ کا حصہ رہیں گے‘اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو قرآن کے طے کردہ معیارات پر ڈھالنے کی سعی کریں جس حقیقی فلاح کا تصور اور جن اقدار کا تذکرہ قرآن کرتا ہے‘ وہی انسان کی اصل قدرکا تعین کرتے ہیں اور یہی وہ معیار ہے جس کے سانچے میں ہمیں اپنی اولاد کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سید حیدر علی کا کہنا تھا کہ اولاد سے محبت، شفقت اور ان کی تربیت کا جذبہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ بہترین تحفہ ہے‘ جس کی بدولت انسانی زندگی اور معاشرے میں رعنائی اور خوبصورتی ہے‘ انسانی معاشرے نے اپنا سفرزرعی سے صنعتی دور اور ٹیکنالوجی سے ابلاغ اور ڈیجیٹائزیشن کے دور تک طے کیا ہے‘ اسی دوران غالب اکثریت سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر آگئی جس نے دنیا کو کارپوریٹ ورلڈ اور کارپوریٹ کلچر میں تبدیل کر دیا جہاں کامیابی کے معیارات دولت اور پوزیشن قرار پائے‘ کامیابی کے ان معیارات نے والدین کے رحجان کو بھی متاثر کیا ہے اور ان کی اکثریت اپنی اولاد کے لیے بہتر انسان کے بجائے کامیاب انسان بنانے کے خواب پلکوں پر سجانے لگی‘اگر اس بات کا جائزہ لیں کہ آج ہم بہتر انسان کے مقابلے میں کامیاب انسان کیوں بننا یا بنانا چاہتے ہیں تو درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی حاکمیت اور اس کے نتیجے میں بننے والے کارپوریٹ کلچر میں کامیابی کا معیار دولت اور طاقت و اختیار ہے ناکہ انسان کے اوصاف حمیدہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشرے میں مقابلے اور مسابقت کی دوڑنے انسانی خصوصیات کے بجائے انسانی حاصلات کو اپنی منزل اور ہدف بنا رکھا ہے‘ شخصیت کی مضبوط بنیاد سے زیادہ معاشی مستقبل کی فکر نے والدین کی سمت ہی تبدیل کر دی ہے‘ جہاں والدین معاشی نظام کے اشاریوں میں اپنے بچوں کو اور خود کو آگے بڑھانے کی حد درجہ کوشش کرتے ہیں‘ بہتر انسان کے مقابلے میں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بنیادی طور پر والدین کی ایک غلطی ہے‘ تعلیمی نظام میں سبجیکٹ نالج کی بھرمار نظر آتی ہے جبکہ معاشرے میں فنونِ لطیفہ کی جگہ گلیمر نے لے لی ہے‘ زمانے کی چالاکی اور مکاری اور ہر چیز ہر ایک کی ضرورت بنا کر پیش کرنے کی مہارت نے خواہشات اور ضروریات کے درمیان فرق کو ختم کر دیا‘ زندگی کے اعلیٰ ترین اہداف کو پسِ پشت ڈال کر صرف رہن سہن کے عادات و اطوار کو ہی اصل زندگی سمجھ لینے سے انسانی معاشرہ نہ صرف پریشانی کا شکار ہوتا ہے بلکہ وہ اندھی کامیابی کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور مقصدِ زندگی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے‘ ضروری سے زیادہ غیر ضروری معلومات اور چیزوں کا جاننا اور رحجان سازی انسانی ذہن کو مخمصے کا شکار کرنے کے لیے کافی ہے‘ ہر دین کا عام طور پر اور دینِ اسلام کا خاص طو ر پر بنیادی پیغام حق شناسی، حق پرستی اور انسانیت کا عروج ہے لیکن جلد باز اور زیادہ سے زیادہ کی خواہش انسانی معاشرے کو دین کی روح سے الگ کر دیتی ہے اور پھر ہر شخص یا تو دین کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے یا پھر دین کو صرف زبان تک محدود رکھ کر بہتر کے بجائے کامیاب انسان بننے کی دُھن میں مشغول ہو جاتا ہے‘ مروجہ معاشی و مالی نظام وسائل پر حق قبضہ کی اجازت دیتا ہے جبکہ فطری طور پر تمام انسانوںکو استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے‘ انسان بہتر کی جگہ کامیابی یعنی حصولِ حق ِ قبضہ پر ڈٹ جاتا ہے‘ بادشاہ کا مذہب عوام کا مذہب بن جاتا ہے‘ جب بالا دست طبقہ دولت ، طاقت اور اختیار کے لیے ہر بازی لگائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ معاشرے میں انار کی کی صورت میں نکلتا ہے اور ہر شخص انفرادی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ مندرجہ بالا نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ معاشرے کے حساس اور ذمے دار طبقے کو اعلیٰ اقدار برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جب بھی اقدار تبدیل ہوں گی‘ کامیابی کے معیارات بھی تبدیل ہو جائیں گے اور ہر خاص و عام کو شعور اور ضمیر کی سیڑھی استعمال کرتے ہوئے بہتر انسان بننے یا بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بہتر انسان ہی اصل میں کامیاب انسان ہے‘ بہتر انسان میں صرف کامیابی نہیں بلکہ کامیابیاں پنہاں ہوتی ہیں۔ نثار موسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ جو موضوع ہے کہ “ہم اپنے بچوں کو بہتر انسان بنانے کے بجائے صرف کامیاب انسان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟” یہ موضوع والدین، معاشرے اور تعلیمی اداروںکے لیے بہت بڑا چیلنج ہے‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ چیلنج اس لیے ہے کہ ہمارا معاشرہ اور خاندانی نظام ہر اس انسان کی پوجا کرنا چاہتا ہے جو معاشی و مادی طور پر کامیاب انسان ہو‘ ظاہر سی بات ہے کہ جو تعلیمی ادارہ ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں‘ اس کا معیار ہی یہی ہے کہ بچے امتحانات میں پاس ہو جائیں اور پاس ہونے کے لیے ان کو اچھے نمبر درکار ہیں اور پاس ہو جائیں گے تو اچھی ملازمت مل جائے گی اور وہ ایک کامیاب انسان بن جائیں گے اور اب ہمیں اس مزاج کو تبدیل کرنا چاہیے‘ ہمیں کامیاب انسانوں کے بجائے بہتر انسان بنانے کی ضرورت ہے اور بہتر انسان بنانے کے لیے سب سے بڑی چیز وہ ہمارا اس معاشرے کو دیکھنے کے انداز کو بدلنا ہو گا‘ اگر ہم اس معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اس مزاج کو تبدیل کرنا ہو گا جس میں ہم ہر اس انسان کو کامیاب سمجھتے ہیں جو کہ ڈگری ہولڈر‘ معاشی طور پر مستحکم ہو۔ اس کی شروعات ہم کو تعلیمی اداروں سے کرنی ہو گی اور تعلیمی اداروں میں جس دن اس کا داخلہ کرائیں تو اس عہد کے ساتھ کے یہاں سے میرا بچہ بہتر انسان بن کر نکلے گا ان شاء اللہ۔ اور تعلیمی ادارے کو بھی اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ جو بھی بچہ ان کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا ہے‘ اب اس کی اخلاقی تربیت کی ذمے داری بھی انہی پر آتی ہے اور تعلیمی ادارہ وہ تمام وسائل بروئے کار لائے جو بچے کو بہتر انسان بنانے میں کارگر ہوں اور یہ سب ملک وملت، معاشرے اور خاندان کی بھی ضرورت ہے جو انسان علم کے ساتھ عمل کے میدان میں آتا ہے تو اس کی کامیابی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے‘ ہمارے تو مذہب میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ تم وہ کام کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ والدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اور ان کے بچے معاشرے کے اہم رکن ہوں‘ والدین،اسکول اور ریاست کو بھی اب یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں ایسے شہری اور انسان پیدا کرنے ہیں جو اس ملک کی بہتری کے لیے ہوں۔ منور عباس کا کہنا تھا کہ یہ سوال بذاتِ خود نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ بہت معنی خیز بھی ہے‘ اس سوال کے جواب سے قبل ہمیں کامیاب انسان اور بہتر انسان میں امتیاز کو سمجھنا ہوگا‘ عام طور پرکامیاب انسان سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ ایک ایسا شخص مادی اعتبار سے ہر چیز حاصل کر چکا ہو‘ اسکول میں پیش پیش ہو‘ امتحانات میں پوزیشن لیتا ہو‘ کم از کم فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کرنے کے بعد اچھی ملازمت حاصل کر کے کار، کوٹھی اور بینک بیلنس بنا چکا ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس بہترین انسان میں درج بالا کامیابیاں بھی ہو سکتی ہیں مگر ان سے بڑھ کر کامیاب انسان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘ باعمل دیندار ہو‘ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے مطابق کامل انسان یعنی بہترین انسان اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی کی 3 منازل عبور کرتا ہوا خودی کی انتہائی بلندی پر پہنچ جاتا ہے‘ خودی پر پہنچنے کے بعد ہر چیز اس کی دسترس میں آجاتی ہے‘ اب یہ بات مربیوں کو طے کرنا ہوگی کہ ان کی آنے والی نسل فقط کامیاب انسان کے طور پر اس دنیا میں زندگی بسر کرے یا پھر ایک بہترین انسان کے طور پر اس دنیا میں اپنا لوہا منواتے ہوئے آخرت میں بھی اپنا ایک مقام حاصل کرے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں خود مربیوں کی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے‘ اسی طرح کچھ لوگوں کے دنیاوی کامیابی کے حوالے سے بھی مختلف نظریات ہیں‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مال و دولت جمع کر لینا کامیابی ہے‘ کچھ کا خیال ہے کہ حکومت کرنا کامیابی ہے اور کچھ کا خیال یہ ہے کہ شہرت اور طاقت سے ہی انسان کامیاب کہلاتا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے‘ اگر دولت ہی کامیابی کی کنجی ہوتی تو قارون دنیا کا کامیاب ترین انسان ہوتا‘ اسی طرح اگر طاقت ، حکومت اور اقتدار ہی کامیابی کا آئینہ دار ہوتا تو پھر نمرود اور فرعون جیسے لوگ دنیا کے کامیاب ترین انسان ہوتے‘ اس لیے ہمیں اس بات کی فکر زیادہ کرنا ہوگی کہ ہمارا بچہ بہترین انسان بن جائے اور اس کے لیے اپنے بچوں کی تربیت بے حد ضروری ہے۔ جب ہمارا بچہ بہترین انسان بن جائے گا تو ہر کامیابی اسی کے قدم چومنے پر مجبور ہوگی۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
آدمی میں گر نہ ہو عقل و ہنر، علم و ادب
ہے وہ چوپائے سے بد تر، گر بشر کہنے کو ہے
ان اشعار میں شاعر غافل انسان کو زندگی بخش پیغام دیتے ہوئے کچھ یوں لب کشا ہے کہ
تو نہ سمجھا آج تک غافل پیامِ زندگی
ہوش میں آجا چلی آتی ہے شامِ زندگی
اپنی دنیا سے نکل اوروں کی دنیا میں بھی چل
دوسروں کے دکھ بٹانا ہے نظامِ زندگی
جمع کر آسانیاں اوروں کے آنے کے لیے
چھوڑ جا نقشِ قدم منزل بتانے کے لیے