مغربی ایجنڈے کی تکمیل کیلیے ملک میں طلاق کا عمل آسان بنا دیا گیا

833

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) خاندان ایک معاشرے کی اکائی ہوتا ہے، یہ بکھرتا ہے تو معاشرہ بھی اثر انداز ہوتا ہے تاہم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے تو خاندانی نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اگر والدین کے مابین طلاق اور خلع واقع ہو جائے تو عموماً بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے،کہ اسلام میں نکاح جیسے پائیدار معاہدے کو بغیر کسی وجہ و ضرورت کے ختم کر دینا نہایت ناپسندیدہ عمل ہے،ان خیالات کا اظہاراسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز،فروغ اسلام فائونڈیشن کے ڈائریکٹر مولاناعطا اللہ عبدالرئوف ، اسلامک لائرز موومنٹ کراچی کے انفارمیشن سیکرٹری وقائم مقام جنرل سیکر ٹری اور سینئر وکیل محمد عامر خان ایڈووکیٹ اوردی ویمن لائرز ایسوسی ایشن کی سی ای او سینئر وکیل بیرسٹر زارا سحر ویانی نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ شادی خاندانی نظام زندگی انسانی فطرت کا تقاضا اور نسل انسانی کی بقا کی ضامن ہے اسی لیے شادی کرنا گھر بسانا جملہ انبیاء علیہ السلام کی سنت رہی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث جو اکثر خطبے نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے کہ نکاح میرا طریقہ ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ میں نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائی تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں تم لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں جب ہم اس نظر سے دیکھتے ہیں تو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت محسوس ہوتی ہے ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا میں نیک اور صلح بیوی بہترین نعمت ہے۔ لیکن بسا اوقات اسلامی احکام کو نظر انداز کرنے اور فریقین کا ایک دوسرے کے مزاج کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے یہ زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں جب نباہ ممکن نہ رہے تو شریعت اسلامی نے طلاق یا خلع کا راستہ باقی رکھتی ہے باوجود اس کے شریعت کی نظر میں طلاق حلال ہے لیکن حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے لیکن جب اپنے معاشرے میں نظر دوڑاتے ہے تو بد قسمتی سے مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور مادر پدر آزاد معاشرے کی خواہش نے ہمارے یہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق اور خلع کی شرح میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ اب ایک بڑے سماجی مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جو ہمارے معاشرے میں موجودہ خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی آزادی نسواں اور روشن خیالی مہم نے بھی اِس شرح میں مزید اضافہ کیا ہے، یہ مہم پاکستان کے مسلم معاشرے کے مشترکہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے تاکہ مغرب ایجنڈے کی طرح یہاں بھی مادر پدر آزاد معاشرہ قائم ہو جائے اور عورت چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل اور بازار کی جنس بن جائے یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ہمارے ملک میں محبت کی شادیوں کے حق میں فضا ہموار کی جا رہی ہے مشترکہ خاندانی نظام تباہ کرنے کیلیے فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر2005ء دفعہ (4) سیکشن 10 کے تحت طلاق کا عمل آسان تر کر دیا گیا ہے، اس کے برخلاف انسانی اور خاندانی معاملات سے تعلق رکھنے والے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ اُن میں فوری انصاف کا حصول مشکل ترین نہیں تو مشکل تر ضرور ہے، جبکہ طلاق کے معاملات کو روشن خیالی کے دور میں انتہائی آسان بنا دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ روزانہ سیکڑوں خواتین ازدواجی زندگی کے بندھن سے آزاد ہو رہی ہیں اور طلاق جیسا ناپسندیدہ عمل اب ہمارے ہاں آسان ترین کام بنتاجا رہا ہے، خواتین اسے حق سمجھ کر استعمال کر رہی ہیں، عدالتیں خلع اورطلاق کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہی ہیں۔ جبکہ شرعی تقاضوں کی تکمیل سے یکسر بے بہرہ ہیں جس کی وجہ سے بعض صورتوں میں شرعی طلاق یا خلع واقع نہیں ہوتی لیکن اسے قانونی سند عطا کر دی جاتی ہے اور دوسری شادی کی صورت میں اس غیر شرعی طلاق خلع کے نتیجے میں زنا کا راستہ کھل جاتا ہے جبکہ فریقین کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو چاہیے کہ’اسلامی احکاما’ اور ‘معاشرتی سکون’ کو بنیاد بنا کر لوگوں میں طلاق اور خلع کے خلاف آگاہی پیدا کرے۔ لوگوں کو اس کے بعد ہونیوالے نقصانات کے بارے میں علم دینا بے حد ضروری ہے، جس کیلیے حکومت کو باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دینی چاہییں جو علما کے ساتھ مل کر مساجد کو مرکز بنا کر خاندانوں کو طلاق کے خلاف آگاہی دیں۔ اسکے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بھی اس معاشرتی بیماری کے خلاف مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس کام کیلیے معاشرے کے حساس اور ذمے دار طبقات اور علما کو خصوصی توجہ دینے اور اِس کے اسباب کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے، یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایازنے کہا کہ معاشرے میں طلاق اور خلع میں اضافے کی بڑی وجہ باالخصوص معاشی دبائو کی کیفیت ہے اور معاشرے میں مادیت پرستی کے ماحول میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مادیت پرستی میں اضافے کی وجہ سے خصوصاً خواتین کے مطالبے بھی بہت بڑھ گئے ہیں اور خواتین کے مطالبے، خواہشات، تمنائے اور مقابلے کا یہ رجحان معاشرے کے اندر سرائیت کر تا جارہا ہے اس صورتحال میں یہی ہوتا ہے کہ آمدن کم ہوتی ہے اور تمنائے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کا آپس میں مینج کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو جس کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوتی ہے کہ گھروں کے اندر ناخوشگوار ماحول پیدا ہوجاتا ہے اور اس میں پھر طلاق اور خلع تک نوبت آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سوشل میڈیا میں جس طرح سے نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو اس کی وجہ سے انسان سے انسان کا رشتہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان بات چیت آپس میں رابطے، اسی طرح والدین اور اولاد، بھائی سے بھائیوں اور بہنوں کا بھائیوں کے آپس میں رابطے بھی تقریباً ختم ہوگئے ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے موبائل پر مصروف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ سے جب انسانی رشتوں کے اندر کمی آجاتی ہے تو پھر غلط فہمیاں، بدگمانیاں فروغ پاتی ہیں اور پھر شوہر اور بیوی کے درمیان بھی بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایکسٹرامیرج ریلیشن شپ کے شکوک بڑھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طلاق اور خلع کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ بحالی آئینی نظام کی کوئی تحریک شروع کی جائے، جس میں میڈیا نصاب، تعلیمی ادارے اور ممبر و مہراب سب کو شامل کیا جائے اور ریاست کی زیر نگرانی میں ایسا ہو کہ نوجوانوں کی جو وزارت ہیں قومی اور صوبائی ان میں تربیت کا نظام مرتب کیاجائے اور والدین کے لیے بھی تربیت کا نظام موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ نکاح نامے میں بھی اس حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق ہو کہ جو نکاح خواہ ہو وہ کوشش کرے کہ دولہا اور دولہن دونوں کو سمجھائے اور اس طرح سے جب ہم قومی حوالے سے یہ تحریک شروع نہ کریں گے تو معاشرے میں اس مہم کے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ہمارا آئینی نظام پہلے ہی شکست ریخ کا شکار ہے یہ مزید شکست ریخ سے دوچار ہوگا۔ سینئر وکیل محمد عامر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت طلاق اور خلع میں اضافہ کا سبب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اِس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے،اگر دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط رہیں گی تو یہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا اور کبھی زوال پذیر نہیں ہوگا،انہوں نے کہا کہ عدم برداشت طلاق اور خلع کا ایک اہم سبب ہے اگر دونوں فریق آپس میں برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزرکریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان رہتا ہے،اگر ہم پاکستان میں طلاق کے اِس بڑھتے ہوئے رحجان کی وجوہات کا ذکر کریں تو ہر ہونے والی طلاق کے پیچھے ایک الگ وجہ اور الگ کہانی ملے گی،مگرطلاق و خلع کے کیسیز کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے،جبکہ قربانی دینے کے عزم میں کمی،زبردستی شادی،مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،سماجی اسٹیٹس،حرص و ہوس،بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا،دوسری یا جلد بازی میں محبت کی شادی،انڈین ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات،معاشی مسائل،شوہر کا نشہ کرنا،وٹہ سٹہ یاخاندان سے باہر شادی کرنا اور نام نہاد این جی اوز کی جانب سے خواتین کی آگاہی(جسے بغاوت پر اْکسانا قرار دینا زیادہ مناسب ہے)کیلئے چلائے جانے والے پروگرام بھی طلاق و خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے ہر ڈسڑکٹ میں ایک فیملی جج تعینات ہے ، ڈسڑکٹ سینٹرل،ایسٹ،ویسٹ ،ساؤتھ اور ڈسڑکٹ ملیر شامل ہیں اگر ہم ایک ڈسڑکٹ کا جائزہ لیں توروزانہ کی بنیاد پر فیملی سوٹ میں 40 کیسزز رجسٹرڈ ہورہے ہیںاس طرح پانچوں اضلاع میںروزانہ200کیسزز خلع اور طلاق کے رجسٹرڈ ہوتے ہیںجبکہ اِس میں 20 فیصد کیسز ایسے ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے اور معاملہ دو خاندانوں کے درمیان ہی رہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک محتاظ اندازے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں طلاقوں کی شرح میں 70 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ طلاق اور خلع خاندانی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے ، طلاق اور خلع کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں،طلاق اور خلع جیسے انتہائی قدم اٹھانے والے لمحے بھر کو بھی اِس نکتے پر غور نہیں کرتے،نتیجتاً اْن کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، جو بچے طلاق اور خلع کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں،یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے،اکثر اوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے،جن والدین کے درمیان طلاق یا خلع واقع ہوجاتی ہے،اْن کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے،وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں،اْن کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثرہوتی ہے اور اْن میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے جو معاشرے کو ایک مفید اور کار آمد شہری سے محروم کردیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خاندان ایک معاشرے کی اکائی ہوتا ہے، یہ بکھرتا ہے تو معاشرہ بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے تو خاندانی نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔بیرسٹر زارا سحر ویانی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کیوں بڑھ رہا ہے اس کا بہت آسان سا جواب ہے کہ کیونکہ ہمارے معاشرے میں لوگ طلاق اور خلع کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ طلاق متاثرین بنیادی طور پر عورتیں ہی ہوتی ہیں، جن کی ذہنی، جذباتی اور معاشرتی زندگی اکثر تباہ ہو جاتی ہے، اس لیے یہ بنیادی طور پر عورتوں کے حقوق کی بات ہے ،ہمارے معاشرے میں بہت ساری خواتین ایسی ہے جن پر شادی کے بعد بے انتہا گھریلو تشدد ہوتا ہے اور ان کو مالی آزادی نہیں ملتی اور ان کو ان کاحق نہیں دیا جاتا ہے۔ اکثر بیشتر ایسے کیسز آتے ہیں جہاں زوجہ کو ان کے خاوند کمرے میں بند کر کے چلے جاتے ہیں اور پھر جب گھر لوٹتے ہیں تو پھر کھانا ساتھ کھائیں یا نا کھائیں یہ ان کی مرضی ہوتی ہے اور میں نے کئی ایسی بھی شادیاں دیکھی ہیں جہاں پر خواتین پر جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے ان عورتوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بہت مشکل سے رشتے کے بندھن میں موجود رہتی ہیں۔ خواتین کو اس کے بارے میں بہت آگاہی اور معلومات ہو رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے اگر بیوی کو طلاق دے دی جائے یا خلع لے لیا جائے تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا ہے اور معاشرے میں الگ بدنامی ہوتی ہے۔