حیرت انگیز شفایابیاں

669

کیوں بھئی مظہر صاحب کیسے سر پر ہاتھ رکھے اداس بیٹھے ہوئے ہیں، مظہر صاحب کے پڑوسی نے ان سے سوال کیا جو اپنے گھر کے درازے پر اکڑوں سر پر ہاتھ رکھے کسی گہری سوچ میں افسردہ بیٹھے تھے۔ مظہر صاحب نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میری چار سالہ بچی جو پچھلے دنوں رشتہ داروں کے یہاں شادی کی تقریب میں گئی وہاں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے سیڑھی سے گر گئی تھی تو ٹخنے کے پاس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ ایک سرکاری اسپتال میں داخل تھی، ہاں ہاں معلوم ہے کیا ہوا بچی کا کیسی طبیعت ہے پڑوسی نے سوال کیا مظہر صاحب نے بتایا کہ بچی کا آپریشن غلط ہو گیا اور ٹھیک ہونے کے بجائے اس کی پوری ٹانگ میں پس پڑ گیا، ڈاکٹروں نے کہا کہ ہمیں گھٹنے کے بہت اوپر سے بچی کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی میں ڈاکٹروں سے یہ کہہ کر بچی کو لے آیا کہ مجھے اس بچی کا مرجانا قبول ہے لیکن میں اس کو معذور رکھ کر نہیں پالوں گا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کے کیا کروں۔ پڑوسی نے کہا کہ لیاقت آباد دس نمبر کی کمرشل مارکیٹ میں ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں جن کی بہت تعریف سنی ہے، آپ وہاں بچی کو لے جائیں ہو سکتا ہے کہ اللہ کوئی بہتر راستہ نکال دے۔
اسی شام کو مظہر صاحب بچی کو پڑوسی کے بتائے ہوئے ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس لے گئے، ڈاکٹر صاحب نے بچی کو اچھی طرح دیکھا پھر مظہر صاحب سے کہا کہ آپ کی بچی ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گی آپ کو کم از کم دو سال تک اس کا علاج کرنا ہوگا ہو سکتا ہے اس سے پہلے یہ ٹھیک ہو جائے لیکن اگر آپ نے یہ دیکھ کرکہ اب اس کی ٹانگ ٹھیک ہوگئی ہماری اجازت کے بغیر علاج چھوڑ دیا تو بچی لنگڑی بھی ہوسکتی ہے۔ آپ کو پابندی سے دوائیں کھلانا ہوں گی اور سختی سے پرہیز کرانا ہو گا۔ مظہر صاحب نے اللہ کا نام لے کر علاج شروع کیا وہ بتاتے ہیں کہ پندرہ دن تک کوئی افاقہ نہیں ہوا ایک ماہ کے بعد یہ ہوا کہ جہاں سے ہڈی ٹوٹی تھی اس جگہ پر ایک گول سا نشان بننا شروع ہوا اگلے پندرہ دن کے بعد وہ پھوڑے کی شکل اختیار کر گیا پھر وہ پھوٹ گیا اس میں سے پیپ نکلی اور ساتھ ہی کچھ ہڈیوں کی کرچیں بھی نکلیں، پھر وہ کہتے ہیں جیسے جیسے اس جگہ سے پیپ نکلتی گئی اوپر سے ٹانگ صحیح ہونا شروع ہوتی گئی تاآنکہ دو سال سے کچھ پہلے ہی بچی کی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو گئی، مظہر صاحب ہمارے محلے میں رہتے تھے اور جماعت کے ہمدردوں میں سے تھے۔
ان ہی ڈاکٹر صاحب کا ایک کمال ہماری فیملی کے ساتھ ہوا تھا 1973 میں میری چھوٹی بہن کی پیدائش ہوئی، ویسے تو سب بچے روتے ہیں لیکن یہ مستقل چیخ چیخ کر روتی تھی والدہ بہت پریشان رہتی تھیں ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں یہ بچی اتنا کیوں روتی ہے اس کو کیا تکلیف ہے اسی ادھیڑ بن میں دو تین مہینے گزر گئے ایک دن والدہ اس کے گال پر پیار کررہی تھیں کہ انہیں ایک بو سی محسوس ہوئی جو کان کے قریب سے آرہی تھی پھر اچانک کان کے اندر نظر پڑی تو کچھ سفید سی چیز کان کے اندر تھی یہ شاید پیپ تھی وہ سمجھ گئیں کہ مسئلہ کیا ہے یہ کیوں اتنا روتی ہے دوسرا مسئلہ بچی کا یہ تھا کہ اس کی آنکھ کے پاس بڑا سا لال نشان تھا جو کچھ ابھرا ہوا بھی تھا اور اس کا پھیلائو بھی کچھ زیادہ تھا اسی طرح کا نشان سینے پر بھی تھا کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ پدم کا نشان ہے جو خوش بختی کی علامت ہوتا ہے لیکن امی چہرے کے نشان پر فکر مند تھیں کی لڑکی ذات ہے چہرہ بدنما ہو جائے گا۔ بہر حال والدہ ان ہی ڈاکٹر صاحب کے پاس بچی کو لے گئیں ڈاکٹر صاحب نے وہی بات کی جو مظہر صاحب سے کی تھی کہ آپ کو دو سال لگ کر علاج کرنا ہوگا درمیان میں چھوڑ دیا بچی بہری ہو جائے گی۔ امی نے علاج شروع کیا وہ پابندی سے دوا کھلاتی تھیں شاید ایک ماہ کے بعد انہوں نے دیکھا کہ بچی کے کان اندر کوئی چیز کلبلا رہی ہے انہوں نے سمجھا کہ یہ شاید کوئی کیڑا ہے انہوں نے ایک ڈبیا کان کے پاس رکھا اور تھوڑا سا بچی کا سر ٹیڑھا کیا تو بچی کے کان سے چاول کے برابر ایک سفید کیڑا ڈبیا میں گرا تھوڑی دیر بعد دوسرا کیڑا گرا وہ ڈبیا لگائے رہیں لیکن کوئی کیڑا مزید نہیں گرا۔ وہ دونوں کیڑے امی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں ڈاکٹر نے دیکھ کر کہا کہ ایسے چھ کیڑے اور وقفے وقفے سے گریں گے آپ خیال رکھیے گا امی جیسے جیسے دوا دیتی گئیں بہن کا رونا بھی کم ہوتا گیا ظاہر ہے کہ تکلیف بھی کم ہو تی گئی اور ساتھ ہی چہرے اور سینے کے لال نشان بھی کم ہونا شروع ہو گئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کے یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ٹھیک ہوں گی۔
شاید علاج کو ایک سال گزرا ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب لیاقت آباد سے عزیزآباد شفٹ ہو گئے اب ہمارے لیے ایک مشکل ہوئی کہ یہاں تو پیدل چلے جاتے تھے ہم غریب آباد میں رہتے تھے وہاں سے پہلے دس نمبر جائو پھر چھ نمبر بس پر عزیز آباد نمبر 8جائو شام کے وقت بسیں بھی بھری ہوئی آتی تھیں اس وقت ہمارے پاس اپنی کوئی سواری نہیں تھی یہ ڈیوٹی میرے ذمے لگی کے میں بچی کو گود میں لے کر غریب آباد چورنگی پر کھڑا ہو جاتا وہاں سے کوئی بس تو نہیں جاتی تھی سوائے ایک 5E کے جو بہت کم ہونے کی وجہ سے گھنٹوں بعد آتی تھی اس لیے ہم کسی بائیک والے سے لفٹ لے کر ڈاکٹر صاحب کے مطب جاتے تھے کچھ دن کے بعد ہم نے اس پریشانی کی وجہ علاج چھوڑ دیا کچھ نشان باقی تھے اور یہ بھی خوف تھا کہ قوت سماعت نہ کچھ کمزور رہ جائے لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی چہرے کے نشانات بھی ختم ہو گئے اور قوت سماعت بھی بالکل ٹھیک رہی بہن کی شادی بھی ہوگئی اور اب اس کے بچے بھی جوان ہورہے ہیں علاج کچھ ادھورا چھوڑنے کے باوجود اللہ کا کرم رہا کہ وہ مکمل صحت یاب ہو گئی۔
ہمارے ایک دوست نے کہا کہ والدہ کا بہت علاج کرایا لیکن ان کے پیروں کا درد نہیں جارہا ہے ہر قسم کا علاج کیا ڈاکٹرز حضرات بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ اصل مرض کیا ہے یعنی مرض کی تشخیص نہیں ہو پارہی ہے۔ میں نے اپنے دوست کو ان ہی ڈاکٹر صاحب کا پتا بتایا وہ والدہ کو لے کر گئے تفصیل سے حال بتایا انہوں نے دوا شروع کی کچھ دن بعد ان کا درد ختم ہو گیا اور وہ ٹھیک ہو گئیں ہمارے دوست نے کہا کہ یار یہ ڈاکٹر بہت ذہین ہیں انہوں نے پہلے ہی دن والدہ سے پوچھا کہ آپ کو بچپن میں کبھی بندر نے کاٹا تھا والدہ نے بتایا کہ ہاں بچپن میں مجھے بندر نے کاٹا تھا اس وقت علاج کرایا تو ٹھیک ہوگئی تھی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بندر کے کاٹے کا درد 40 اور کبھی 50سال کے بعد اٹھتا ہے آپ کے وہی درد ہے جو ان شاء اللہ صحیح ہو جائے گا۔ یہ ڈاکٹر افضال انصاری تھے جن کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو گیا ان کا عزیزآباد میں مطب تو اب بھی ہے لیکن اب وہ بات کہاں۔