پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام

752

پاکستان میں سیاسی ماحول روز بروز گرم ہوتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نئے اتحاد کے قیام سے ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ حکومت نے بھی اپوزیشن جماعتوں کو نکیل ڈالنے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ لاہور شاہدرہ کے تھانے میں پی ٹی آئی کے کارکن بدر رشید نے نواز شریف اور وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر سمیت ن لیگ کی پوری قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرادیا ہے۔ مقدمے میں مجرمانہ سازش، بغاوت اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات شامل ہیں۔ بدر رشید جو پی ٹی آئی کا عہدیدار ہے۔ اس نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے یوسی کا الیکشن بھی لڑا ہے اور اس کے خلاف تھانہ شرقپور، پرانی انار کلی اور شاہدرہ میں اقدام قتل، ناجائز اسلحہ اور پولیس سے دست درازی سمیت مختلف جرائم پر مقدمات درج ہیں۔ وزیر اعظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس میں بھی نواز شریف سمیت ن لیگی اراکین کے خلاف غداری اور بغاوت کے مقدمے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ غداری اور بغاوت کے مقدمے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کسی سے بھی سیاسی انتقام کے حق میں نہیں ہے۔ ادھر پی ڈی ایم نے بھی اپنے قیام کے فوری بعد جلسہ جلسوں کا بھی اعلان کردیا ہے اور اس سلسلے میں وہ 16اکتوبر سے ملک بھر میں جلسوں کا آغاز کرے گی۔ 18اکتوبر کو کراچی میں بڑا جلسہ، 30نومبر کو ملتان، 27دسمبرکو بے نظیر بھٹو کی برسی پر لاڑکانہ میں بھی جلسہ ہوگا۔
پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کے ظلم کا خاتمہ کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ کے قائدین پر بغاوت کے مقدمات درج ہونے پر کہا کہ آئین کی بات کرنا بغاوت ہے تو یہ بغاوت روز ہوگی۔ ہم آئین سے روگرانی کرنے والوں کے خلاف جنگ کریں گے۔ حکومت کو سیاسی مقابلہ کرنا ہے تو وہ میدان میں آئے۔ شاہد خاقان عباسی کی یہ بات درست محسوس ہوتی ہے۔ ابھی پی ڈی ایم کا قیام ہی عمل میں آیا ہے اور حکومت نے بغاوت بغاوت کہنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین پر غداری کے مقدمات حیران کن ہیں۔ غداری کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بھری ہوئی ہے اس سے قبل محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار کہا گیا تھا۔ ملک میں مہنگائی غربت بے روزگاری کا عروج ہے۔ غریبوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ کرپشن اور رشوت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ریاست مدینہ کا نام لینے والی حکومت صبح شام جھوٹ بول کرغیر مقبول ہورہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ظلم کی انتہا یہ کہ 300فی صد تک ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا اسی طرح دور دورہ رہا تو حکومت کے خلاف کسی اتحاد کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور حکومت کا خود بخود دھڑن تختہ ہوجائے گا۔
ملک کو اس وقت کورونا کی دوسری لہر کا سامنا ہے اور ملک بھر سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ ادھر اپوزیشن کے جلوس جلسوں کے اعلانات نے بھی ایک خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ پاکستان میں جس طرح کے جوش اور جذبوں کے ساتھ جلوس جلسے ہوتے ہیں اور عوام کا جم غفیر ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں عوام کی صحت کے لیے شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں اور کسی بھی ایسے اقدام سے اجتناب برتا جائے جو عوام کے لیے خطرات کا باعث بن جائے۔ ادھر مریم نواز نے بھی مسلم لیگ کی مزاحمتی فورس کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطابق ہر ضلع میں سے 200افراد کو اس فورس میں شامل کیا جائے گا اور قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران اور ارکین یہ افراد مہیا کریں گے اور قیادت کی گرفتاریوں پر یہ فورس احتجاجی مہم چلائے گی۔ حکومت نے پی ڈی ایم کے قیام اور اس کی جانب سے جلسوں اور ریلیوں کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جلسوں جلوس پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی ہم ان پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی ارداہ ہے۔ حکومت کو ان جلسوں جلوس سے کوئی پریشانی اور تشویش نہیں ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ حکومت ان جلسوں جلوسوں پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی بھی عائد نہیں کرے گی۔
پی ٹی آئی نے اپنے دو سالہ دورِ حکومت میں عوام کو انتہائی مایوس کیا ہے۔ ان کے دو سالہ دورِ حکومت میں رشوت اور کرپشن بڑھی ہے۔ عمران خان نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اورمشرف کے وزراء کو جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑا ہے اور ان کے دور حکومت میں ناکامیوں اور یوٹرن کے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے پشاور رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پشاور شہر کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پشاور شہر میں اتنی گرد ہے تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ مجھے تو پشاور میں ایک درخت بھی نظر نہیں آیا بلین ٹری منصوبہ کہاں ہے۔ سیکرٹری ایسے سفید کپڑوں میں آرہے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ کبھی فیلڈ میں گئے ہوں۔ افسران کام نہیں کر رہے ہیں ان سب کو فارغ کر دینا چاہیے۔ ایسے گمبھیر حالات میں جب ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ آگ میں مزید تیل نہ چھڑکے حکمراں اپوزیشن کو غدار قرار دینے کے بجائے خود عوام سے وفاداری کا عملی ثبوت فراہم کرے۔ عدلیہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حکومتی عزائم انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ حکمراں قومی وحدت کو تقسیم نہ کریں اور اس طرح کے عزائم بڑے بڑے حکمرانو کو ماضی میں لے ڈوبے ہیں۔ حکومتی وزراء نے اپنی روش نہ بدلی تو پورا نظام خطرے میں پڑھ سکتا ہے۔
پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ کا قیام اپوزیشن کا ایک جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوجا غیر جمہوری اقدام ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے اور زیرک سیاستدان ہیں انہیں بڑی محنت اور مشقت کے بعد پی ڈی ایم کی صدارت حاصل ہوئی ہے۔ امید ہے کہ اس اتحاد کے قیام سے پاکستان میں جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہوگا اور مظلوم عوام کے مسائل حل ہوں گے۔