سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخاب کیوں نہیں کرواتیں

457

عوامی و سیاسی حلقوں میں یہ سوال ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے کہ آخر سیاسی جماعتیں جب برسراقتدار ہوتی ہیں بلدیاتی انتخاب کے انعقاد سے گریز کا راستہ کیوں اختیار کرتی ہیں۔ اس کے اسباب و وجوہ لا تعداد ہیں سب سے اہم بات تو یہی ہے کہ جو پارٹی جس صوبے میں برسراقتدار ہوتی ہے وہ چاہتی ہے کہ ہر وارڈ، ٹائون اور کونسل میں اس کے نامزد کردہ نمائندے ہوں حالانکہ یہ سب سرکاری ملازم ہوتے ہیں لیکن یہ برسر اقتدار سیاسی جماعت کے احکامات کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر اس سیاسی جماعت کے کارکنان کو بھی عوامی مسائل حل کرانے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس طرح اس برسر اقتدار سیاسی جماعت کی ان علاقوں میں بھی رسائی ہو جاتی ہے جہاں اس کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے۔ وہ بلدیاتی خدمات کے حوالے سے عوام میں اپنی پارٹی کی سیاسی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں پھر ایک اور اہم بات یہ کہ ترقیاتی بجٹ کا بھی سارا حساب کتاب اس سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر ہم کرپشن کی بات نہ بھی کریں تب بھی ترقیاتی اخراجات جب کسی سیاسی جماعت کے ذریعے ہوتے ہیں تو عوام جو اپنے مسائل کے حل کے لیے پریشان ہوتے ہیں اسی پارٹی سے رابطہ کرتے ہیں جس کے ہاتھ میں سارے فنڈز ہوتے ہیں اور انہیں خرچ کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔
مرکز اور صوبوں میں جو سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوتی ہیں بلدیاتی انتخاب کرانے کی صورت میں انہیں اپنی پارٹی میں انتشار کا خطرہ رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی پارٹی کا ایم این اے اور ایم پی اے یہ چاہے گا کہ اس کے حلقے میں جو بلدیاتی نشستیں ہیں ان پر ان کے بیٹے بھائی بھتیجے بھانجے انتخاب لڑیں تاکہ ان بلدیاتی اداروں میں ان کی گرفت مضبوط رہے۔ ایسی صورتحال میں اکثر حالات میں برسر اقتدار پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے میں سیاسی ٹکرائو ہو جاتا ہے جو حکومتی پاٹی کی قیادت کے لیے ایک آزمائش بن جاتی ہے۔ اس طرح پارٹی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔
حکومتی پارٹی کی سیاسی قیادت اگر اپنے ایم این اے کا ساتھ دیتی ہے تو ایم پی اے صاحب ناراض ہو کر اپوزیشن کی سیاسی جماعت سے خفیہ رابطہ کرکے اس کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر ایم پی اے کا ساتھ دیا جاتا ہے تو ایم این اے صاحب دوسری طرف جانے کی دھمکی دیتے ہیں اس طرح کی صورتحال سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ بلدیاتی انتخاب ہی نہ کروائے جائیں۔ دوسرا سیاسی نقصان یہ ہوتا ہے کہ صوبے کے جن علاقوں میں حکومتی پارٹی کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے وہاں بلدیاتی انتخاب میں اپوزیشن کی جماعتیں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرواتیں ہیں اس طرح انہیں ان بلدیاتی اداروں کے انتخاب میں کامیابی کی صورت میں ایک اسپیس مل جاتا ہے۔
مردم شماری میں پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو اعتراضات داخل کرائے گئے ہیں، اس کا مردم شماری کے ادارے کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا کہ کراچی کی تین کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ بتایا گیا ہے اس پر وفاقی حکومت کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے، لیکن صوبہ سندھ کا الیکشن کمیشن صوبے میں بلدیاتی حلقہ جات کی جو تیاری کررہا تھا پی پی پی نے مردم شماری کا بہانہ بنا کر اسے رکوا دیا پیپلز پارٹی کو تو یہ آسانی ہے کہ اس نے صوبے میں ہر جگہ اپنی پسند کے ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کردیا ہے، گو کہ یہ سب سرکاری ملازم ہیں لیکن ظاہر ہے یہ برسراقتدار پاٹی کے احکامات ہی کو ترجیح دیں گے اور یہ کہ ان اداروں کے فنڈز کے استعمال میں بھی پی پی پی کو دسترس حاصل ہو جائے گی۔
سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جب کبھی ملک میں مارشل لا آیا تو فوجی حکومتوں نے دو چیزوں کا خاص خیال رکھا ایک تو یہ کہ عوامی مسائل عوام کے دروازوں پر ہی حل ہو جائیں اور انہیں اِدھر اُدھر کہیں بھاگنا نہ پڑے دوسرے انہوں نے مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایوب خان کے پورے دور حکومت میں اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کو استحکام حاصل رہا ان کے خلاف جو تحریک چلی اس کی وجہ مہنگائی نہیں تھی بلکہ دس سالہ آمریت تھی، اسی طرح ایوب خان کے دور میں بی ڈی ممبران کے ذریعے عام لوگوں کے بلدیاتی مسائل بھی حل ہو رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تین مرتبہ مسلسل بلدیاتی انتخاب کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کے بلدیاتی مسائل حل ہوتے رہے بلکہ شہروں اور دیہاتوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اسی طرح ضیاء صاحب کے دور میں اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کو استحکام حاصل رہا، پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی بلدیاتی اداروں میں انتخابات کرائے گئے اور اس کی وجہ سے شہروں میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی میں جو زبردست کام ہوئے اس کی تعریف تو مخالفین بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح پرویز مشرف نے کسی حد تک مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔
اس کے مقابلے میں جب بھی سیاسی حکومتیں رہی ہیں ان کے دور میں مہنگائی میں کمر توڑ اضافہ ہوا ہے بھٹو صاحب کے پانچ برسوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں میں جو اضافہ ہوا اس کی وجہ سے جب ان کے خلاف تحریک چلی تو پاکستان قومی اتحاد نے یہ نعرہ لگایا کہ وہ اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کو 1970کی سطح پر لے آئیں گے اس کے بعد بھی کئی مرتبہ پی پی پی کی حکومت رہی ہر دور میں مہنگائی بڑھتی ہی رہی اور یہی حال ن لیگ کی حکومتوں میں رہا آج کل پی ٹی آئی کی حکومت ہے ان کی حکومت میں تو روزآنہ کے حساب سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن وہاں بھی بلدیاتی انتخاب ہوتے مشکوک نظر آرہے ہیں۔