اور کراچی ڈوب گیا

942

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کی معیشت میں اس شہر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے اس شہرکے ساتھ ہمیشہ کھیلواڑ کیا ہے۔ اس شہر کے باسیوں کو کبھی لندن، کبھی پیرس اور کبھی ایشین ٹائیگر کے خواب دکھا کر دھوکا دیا ہے۔ کراچی میں مسلسل تین دن کی بارش نے حکمرانوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کا دعویٰ کر رہے اور اس شہر کو جدید ترین شہر بنانے کے لیے وفاق سے 17کھرب یا 10ارب ڈالرکا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب میئر کراچی اپنی چار سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وڈیرہ ذہنیت کے حامل لوگ بلدیاتی نظام نہیں چاہتے۔ سندھ حکومت اور آرٹیکل A.140 ناکام ہوا ہے ہم ناکام نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی کے شہری گزشتہ چار سال سے سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور سندھ حکومت نے کراچی کو اے ٹی ایم بنا دیا ہے۔ وسیم اختر اپنی نااہلی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ کراچی کو ایک بار پھر لسانیت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
کراچی کو پیرس اور یورپ بنانے کے دعویدار کراچی میں تین دن سے جمع پانی بھی نہیں نکال سکے اور بارش کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا۔ شدید بارشوں کی وجہ سے گلستان جوہر میں ایک پہاڑی تودہ گرنے سے کئی مکانات گر گئے۔ کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اتنے خطرناک علاقے میں آبادکاری کی منظوری دینے والے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ اہلکار اس حادثے کے برابر کے ذمے دار ہیں۔ جنہوں نے اپنی کرپشن سے چائنا کٹنگ کے نام پر شہر کی اربوں روپے کی زمینوں کو بیچ کھایا۔ کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی پر کروڑوں روپے ڈکار لیے گئے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سرجانی، یوسف گوٹھ، سعدی ٹائون میں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی۔ کھنڈو ڈیم اور حب ڈیم بارش کے پانی سے اوور ہوگیا اور ڈیم کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ شاہراہ فیصل جو کراچی کی اہم شاہراہ ہے۔ گورا قبرستان، نرسری، ائرپورٹ، ملیر سے قائد آباد تک یہ شاہراہ ایک بڑی جھیل کا منظر پیش کرتی ہے اور اس شاہراہ پر موجود گاڑیاں، موٹر سائیکل مکمل طور پر ڈوب جاتی ہیں۔ مسافر کئی کئی گھنٹے بارش پھنس جاتے ہیں، ایسے میں لوگوں کی جو درگت بنتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ایسی ہی صورتحال سرجانی میں پیدا ہوگئی اور بارش کے پانی نے سیلابی صورتحال اختیار کر لی تھی۔ جماعت اسلامی اور الخدمت کے کارکنان نے اس موقع پر عملی طور پر خدمت سرانجام دی اور لوگوں کی بحالی کے لیے دن رات کام کیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن خود وہاں پہنچے اور اپنے کارکنان کے ہمراہ عوام کی بحالی کے لیے اقدامات کیے انہوں نے اعلیٰ حکام سے بھی رابطہ کیا اور سرجانی کے عوام کی حالت زار سے انہیں آگاہ کیا اور فوری طور پر سرجانی کے عوام کے گھروں سے بارش کا پانی صاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سرجانی تین دن سے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ منتخب نمائندے صرف نمائشی اور فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ بارش سے غریبوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ الخدمت کے رضاکاروں نے اپنی جانیں دائو پر لگا کر متعدد افراد کو ڈوبنے سے بچایا ہے اور متاثرین میں کھانا اور پانی تقسیم کیا گیا۔
کراچی میں بارش کی تباہ کاری سے ہر شخص پریشان ہے اور سوال کر رہا ہے کہ منتخب حکومت کہاں ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کر رہی ہیں۔ ان دونوں حکومتوں کی کھینچا تانی نے شہر کراچی کو مسائلستان بنا دیا ہے اور بارش سے متاثرہ افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہوچکی ہے لیکن یہاں کے عوام اب پھر کسی عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے منتظر ہیں کیونکہ دیانت دار اور ایمان دار قیادت ہی کراچی کے عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ ہم نے اس سے قبل بھی اپنے کالم میں حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ کوہ سلیمان سے ملیر ندی میں آنے والا برساتی پانی جو سمندر میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے اگر ملیر ندی میں بارش کے اس پانی کو جمع کرلیا جائے تو ایک اور حب ڈیم قائم ہوسکتا ہے اور یہ ملیر ڈیم کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، گلستان جوہر، ڈیفنس ویو، محمود آباد، اختر کالونی، منظور کالونی، پی ای سی ایچ سوسائٹی، قیوم آباد، کشمیر کالونی ودیگر قرب وجوار کی آبادیوں کو پانی کی ضرورت ایک سال کے لیے پورا کرسکتی ہے اور ٹینکر مافیا سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو عوام کی پریشانی اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔
کراچی بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور کے الیکٹرک کی لوٹ مار اووربلنگ کے ساتھ ساتھ بدترین لوڈشیڈنگ ایک عذاب بنی ہوئی ہے۔ گلی گلی میں گٹر ندی نالے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے موذی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے تو ہر سیاسی جماعت نے اپنی آستینیں چڑھائی ہوئی ہیں لیکن کراچی کے عوام کی عملی طور پر کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کو جدید یا ماڈل شہر بنانے کے دعوے کرنے کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے ہوںگے۔ ماڈرن سٹی کے بجائے اسے کراچی ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ جو دستیاب وسائل ہی ایمان داری کے ساتھ اس شہر پر خرچ کر دیے جائیں تو یہ شہر ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مادڑن سٹی کے لیے 15ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن وفاق تو انہیں پانچ ارب روپے بھی نہیںدے رہا ہے تو اس طرح کی بیان بازیاں عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ بلدیہ کراچی کا سیشن پورا ہوچکا ہے۔ اس تمام عرصے میں اختیار کا رونا رونے والے اب پارٹی جھنڈوں کے ساتھ ترقیاتی کاموں کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ اہل کراچی ان حالات میں ایک بار پھر اپنے مسیحا کی تلاش میں ہیں اور کراچی شہر کو آج پھر ایک اور نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کی ضرورت ہے جو گندگی اور غلاظتوں کے شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنا دے۔ اس کے لیے ضروت اس امر کی ہے کہ اہل کراچی جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں ورنہ گزشتہ چار سال کی طرح شہر کراچی گندگی کا ڈھیر بنا رہے گا۔ کراچی کی عظمت رفتہ اس وقت بحال ہوگی جب اہل کراچی اپنے سر کا تاج اس شخص کو بنائیںگے جو کراچی کے شہریوں کو زخم دینے کے بجائے ان کے زخموں پر مرحم رکھنے والا ہو۔