روز و شب

688

اپنے کالم تیری نظروں کے نذرانے، زمانے میں دراصل حاطب صاحب نے اب سے تقریباً پچاس سال پہلے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس وقت کے حالات ماحول، اس میں ٹی وی کی آمد اور اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تنزلی کا ذکر کیا ہے۔ یوں تو حاطب مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں مگر علم و عمل۔ شعر و سخن۔ اردو ادب اور کالم نگاری میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اور ہم طفل مکتب۔ اس کالم میں انہوں نے جو نقشہ کھینچا ہے ہم بھی اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ اور ہمارا بچپن اور لڑکپن انہی علاقوں میں گزرا ہے جن کا ذکر خیر ان کے کالم میں موجود ہے۔ مثلاً سعودآباد، ملیر، کھوکھراپار، ماڈل کالونی وغیرہ۔۔۔ خیر آمدم بر سر مطلب۔۔۔ ہمیں یاد آیا کہ جب ہم جمعیت میں تھے تو ہر کارکن، رفیق، امیدوار رکنیت اور ارکان سب کو ایک روزنامچہ بھرنا پڑتا تھا جو متعلقہ نظم کو جاتا تھا۔ اس طرح ہماری تعلیم و تربیت، تزکیہ نفس اور کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا اور اگر کہیں کوئی کجی ہوتی تو بہت ہی خوبصورت انداز میں اس پر تبصرہ اور تنبیہ ہوتی تھی۔ اب بھی غالباً یہ نظام جاری و ساری ہے۔
اس روز و شب میں ہمیں بتانا ہوتا تھا کہ: آج ہماری کون سی نماز قضا ہوئی اور کیوں؟؟ کون سی نماز بلا جماعت ہوئی اور کیوں؟؟ کون سی نماز بغیر تکبیر اولیٰ ہوئی اور کیوں؟؟ آج ہم نے کتنا قرآن پڑھا۔ کون سی تفسیر پڑھی، سیرت اور احادیث کی کون سی کتاب پڑھی، اپنی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا احاطہ بھی کرنا پڑتا تھا اور دیگر ذمے داریوں کا بھی ذکر خیر ہوتا تھا۔ غرض صبح سوکر اٹھنے سے لیکر رات سونے تک کی ڈائری لکھی جاتی تھی اور بالآخر اس پر نظم کا تبصرہ ہوتا تھا۔
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہم امیدوار رکنیت تھے۔ اور عید کا موقع تھا۔ ہم جامعہ کراچی کے ہوسٹل سے گھر آئے ہوئے تھے۔ یہ بات سعودآباد کی ہے۔ ان دنوں ہمارے یہاں TV نہیں تھا۔ ہم لوگوں سے عید ملتے ہوئے اپنے پڑوسی کے گھر گئے جو تحریکی گھرانہ تھا۔ اتفاق سے ان کے گھر TV تھا اور ظاہر ہے بلیک اینڈ وہائٹ تھا۔ اسی دوران TV پر عید کے حوالے سے مزاحیہ خاکوں کا پروگرام چل رہا تھا۔ جو ہم نے بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔ اور جب روز و شب لکھنے بیٹھے تو اس کا بھی ذکر کردیا اور اپنی رپورٹ نظم کو جمع کرادی۔ جب روز و شب کی رپورٹ واپس آئی تو ہماری اس مصروفیت پر سرخ قلم سے دائرہ بنا ہوا تھا۔ اور تبصرہ تھا۔ ’’اس پروگرام میں کتنے نامحرم چہرے تھے؟؟‘‘ یہ دیکھ کر کاٹو تو بدن میں لہو نہیں… سکتے میں آگئے۔ دل کر رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور ہم دفن ہو جائیں۔ اتنا بڑا گناہ جو سرزد ہوگیا تھا ہم سے کافی دنوں تک دل پر بوجھ رہا اور ہم شرمندہ شرمندہ سے رہے۔
خیر کچھ عرصے بعد رکن بن گئے۔ جمعیت کا رکنیت کا حلف اٹھایا۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ جامعہ میں الیکشن ہارنے کے بعد اسی نظم نے حلف کے بر خلاف طالبات کو دوبارہ سے منظم کرنے کی ذمے داری لگادی۔ جو اس تربیت سے ہٹ کر تھی جو ہمیں روز و شب کے ذریعے دی گئی تھی اور جس کی وجہ سے بے شمار نا محرم چہروں سے روزآنہ واسطہ پڑتا تھا۔۔۔
ان ہی دنوں صدر انجمن اپنے دوست کو مالی فائدہ پہنچانے کے لیے اس کے گارمنٹ کی تشہیر کے لیے ایک اشتہار میں بحیثیت ماڈل کاسٹ ہوئے اور نتیجتاً جمعیت سے نکالے گئے۔ اور اب جبکہ پلوں کے نیچے تو کیا اوپر سے بھی کافی پانی گزر چکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جلسے جلوسوں میں خواتین اور مرد حضرات شانہ بہ شانہ شریک ہیں۔ جن میں بہت سی خواتین بے پردہ بھی ہوتی ہیں۔ ان جلسے جلوسوں کی ویڈیوز بھی بنتی ہیں اور ترانے بھی گائے بجائے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کو وائرل بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اب تو TV پر بے پردہ۔ سر جھاڑ منہ پہاڑ۔ فیشن زدہ اینکرنیاں ہمارے علماء، قائدین اور رہنمائوں کا منہ در منہ انٹرویو لیتی نظر آتی ہیں۔ اور ٹاک شوز میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
غرض وہ ترقی معکوس جو TV اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسلامی تحریکوں میں در آئی ہے اب سے پچاس سال پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔۔ ایک وقت تھا کہ کسی کسی گھر میں ریڈیو اور TV ہوتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ شاید ہی کسی گھر میں نہ ہو، یہی حال ہم لائوڈ اسپیکر کے استعمال میں دیکھتے ہیں کہ جب نیا نیا آیا تو علماء نے مخالفت میں فتوے جاری کیے مگر اب یہ حال ہے کہ کوئی مسجد اس سے مبراء نہیں۔ اب ہر خطیب چاہتا ہے کہ اس کی آواز سب سے دور تلک جائے۔ اسی طرح شروع شروع میں تصویر کا مسئلہ آیا تو اس کے بھی حلال و حرام پر بحث چھڑ گئی اور دو مکتبہ فکر سامنے آگئے۔ ایک مکتبہ فکر علمائے عرب کا تھا جنہوں نے ڈیجیٹل تصویر کو حلال کردیا جب تک کہ اس کو کاغذ پر چھاپا نہ جائے۔ دوسرے ہمارے علماء تھے جنہوں نے ہر دو صورتوں کو ناجائز قرار دیا اور صرف پاسپورٹ۔ اور دیگر شناختی دستاویزات پر قبول کیا مگر کراہت کے ساتھ۔۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ جب کرنسی نوٹوں پر تصویریں چھپنے لگیں۔ تو لوگوں نے ایک مفتی صاحب سے اس کے خلاف فتویٰ مانگا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھائیوں مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا اور کرنسی نوٹ چل جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا اور اب تک ہورہا ہے۔
آج کل اسلامک بینکنگ کا بڑا چرچا ہے۔ ہم نے بھی دارالعلوم کراچی سے اسلامک بینکنگ میں PGD کیا اور تیسری پوزیشن لی جبکہ دیگر تمام طلبہ نوجوان تھے اور ہم ریٹائرڈ۔۔۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ آج بھی اسلامک بینکنگ کے بارے میں علماء کے دو واضح مکتبہ فکر ہیں۔ ایک اس کو حلال کہتا ہے اور دوسرا حرام۔ حرام کہنے والے اسے صرف نام اور اصطلاحات کی تبدیلی کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات عملاً اسلامک بینکنگ کو پاکستان اور دنیا میں رائج کررہے ہیں اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر مسلم ممالک بھی اس کے قائل ہیں اور اس کو اپنے ملکوں میں اپنا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی اور تبدیلی کا سفر جاری ہے۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یعنی زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی عادات و اطوار اور معاملات میں بھی تغیر نا گزیر ہے۔ یہاں ہم مزید مثالوں سے گریز کرتے ہیں تاکہ کالم طویل نہ ہوجائے اور ایک کتاب کے ذکر خیر پر اس کا اختتام کرتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے ہم نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ ’’فلسفہ شریعت اسلام‘‘ جو ڈاکٹر صبیح محمصانی کی تصنیف تھی۔ مصنف اس موضوع پر Phd تھے اور سند کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ لبنان کی حکومت میں وزیر قانون تھے اور بیروت یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے پروفیسر بھی تھے۔ بڑی معرکہ آرا کتاب تھی جس میں انہوں نے رسول اللہؐ خلفائے راشدین، صحابہ کرام، ائمہ کرام وغیرہ کے حوالوں اور دلائل کے ساتھ گفتگو کی تھی کہ زمان ومکان کے تغیر سے انسانی معاشرے میں بھی تغیر آجاتا ہے اور سوائے چند بنیادی اور اصولی عقائد کے دیگر بہت سے معاملات میں بھی تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے قوانین اور روز مرہ کے اصول و ضوا بط میں بھی تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔