کورونا زندگی کا پہیہ نہیں روک سکتا

641

کورونا وائرس سے جو ممالک بُری طرح متاثر ہوئے تھے اور ان میں لاک ڈائون یعنی کاروبار زندگی کو معطل کرنا ہی اس کا واحد علاج تصور کیا گیا تھا۔ یہ سب ممالک اب اس اُلجھن سے باہر نکل رہے ہیں۔ زندگی تو حرکت کا نام ہے اس کا پہیہ چلتا رہتا ہے، کبھی نہیں رکا، رکے گا تو قیامت آجائے گی۔ قیامت کب آئے گی؟۔ اس کا علم اس کائنات کو بنانے والے کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہم لوگ تو زندگی گزارنے کے مکلف ہیں، زندگی ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ چناں چہ کورونا سے متاثر ممالک میں جو لاک ڈائون ہوا تھا وہ بتدریج ختم ہورہا ہے اور معمولاتِ زندگی بحال ہورہے ہیں۔ پاکستان بھی اُن ملکوں میں شامل ہے جہاں لاک ڈائون کا بہت چرچا تھا، سرکاری و نجی دفاتر تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز، بازار روڈ ٹرانسپورٹ، ٹرینیں اور پروازیں بند کردی گئی تھیں۔ مساجد میں بھی لوگوں کے داخلے پر پابندی تھی، نماز جمعہ کے اجتماعات کو خاص طور پر روکا جارہا تھا۔ رمضان المبارک کے دورن بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاہم عید سے دو تین دن پہلے حکومت نے لاک ڈائون مشروط طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ شرط یہی تھی کہ لوگ ایس او پیز کی پابندی کریں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، ماسک پہنیں، مصافحہ کرنے سے گریز کریں، بازاروں میں رش نہ ہونے دیں، دکاندار تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائیں لیکن ہوا یہ کہ جونہی پابندی ہٹی لوگ سیلابی ریلے کی طرح بازار میں آگئے عورتیں چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے اور بڑوں کی انگلیاں تھامے دکانوں پر ٹوٹ پڑیں اور دو تین دنوں میں اتنی شاپنگ کی کہ سال بھر کی خریداری کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ پھر عید بھی دھڑلے سے منائی۔
اب اگرچہ کہا جارہا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور اموات بھی بڑھ رہی ہیں لیکن زندگی کا جو پہیہ ایک وقفے کے بعد چل پڑا ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ چناں چہ ٹرینیں چل پڑی ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر آگئی ہے، اندرون ملک جہازوں کی آمدو رفت تو پہلے ہی شروع ہوگئی تھی اب بین الاقوامی پروازیں بھی آ جا رہی ہیں، دفاتر کھل رہے ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام شروع ہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت نے وفاق کے زیر انتظام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کردیا ہے، البتہ صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ تعلیم کا شعبہ بھی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار میں آگیا ہے اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں من مانی کررہی ہیں۔ قومی سطح پر کسی مربوط تعلیمی پالیسی کا وجود نظر نہیں آتا۔ پورے ملک میں تعلیمی اداروں کی بندش سے اصل نقصان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خواتین و مرد اساتذہ کا ہوتا ہے انہیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور ان کے گھروں میں فاقے کی نوبت آگئی ہے جب کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے عملے کو صوبائی حکومتیں باقاعدگی سے تنخواہ دے رہی ہیں اور ان اساتذہ کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔ برطانیہ کورونا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ لیکن وہاں تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی تعلیم کا کاروان چل پڑا ہے، دیگر یورپی ملکوں سے بھی یہی اطلاعات آرہی ہیں، پاکستان زیادہ عرصے تک تعلیم سے بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔ صوبائی حکومتوں کو بھی ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ تعلیمی ادارے کھول دینے چاہئیں۔
کورونا نے وزیراعظم عمران خان کے لیے سیاسی میدان بھی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں فی الحال کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے، آصف زرداری بیمار ہیں اور آئے دن ان کے بارے میں افواہیں اڑتی رہتی ہیں، بلاول جو عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے نہیں تھکتے تھے ان دنوں بالکل خاموش ہیں۔ نیب نے شہباز شریف کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔ مریم نواز بھی خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہیں۔ احسن اقبال، سعد رفیق، خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ نے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں راوی عمران خان کے حق میں چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ وہ اس خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم از کم اپنی چارپائی کے نیچے تو ’’ڈانگ‘‘ پھیر سکتے ہیں اور ان خوشامدیوں سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں جو عوام میں ان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عمران خان ایسا نہیں کرسکیں گے۔ خوشامد سننا اور خوشامدیوں میں گھرے رہنا اب ان کی عادت ثانیہ بن گئی ہے۔ وہ میڈیا میں بھی ان ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کی تعریفوں کے پل باندھنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کو تنقید ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میڈیا کے پَر کترنے کے لیے وہ اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو انہوں نے پہلے ہی نیب کے ذریعے قابو کر رکھا ہے۔
سیاست کی اس سرد بازاری میں میاں نواز شریف کی ایک اور تصویر نے تھوڑی سی ہلچل مچادی ہے۔ وہ لندن کے ایک ریستورن میں دو خواتین کے ہمراہ چہرے پر ماسک لگائے چائے یا کافی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ یہ تصویر پاکستانی میڈیا تک کیسے پہنچی؟ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے خود یہ تصویر ریلیز کروائی ہے تا کہ میڈیا میں ان کی موجودگی برقرار رہے اور وہ زیر بحث آتے رہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے جو ہرزہ سرائی ہونی تھی ہوچکی اب انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بھی پاکستان واپس بھیج دی ہے جو ان کے ساتھ ہی لندن گئے تھے اور وہاں سے ہر دوسرے تیسرے دن میاں صاحب کی صحت کے بارے میں بلیٹن جاری کیا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ میاں صاحب نے بھی زیادہ تکلف نہ کیا۔ کہا جارہا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں اور کسی وقت بھی ان کا آپریشن ہوسکتا ہے لیکن کورونا نے ان کی یہ مشکل بھی حل کردی ہے اب جب تک کورونا ہے وہ ہر قسم کے علاج معالج سے آزاد ہوگئے ہیں اور لندن میں بیٹھے عمران خان کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔