جنگ آزادی جس کو انگریز غدر کا نام دیتے ہیں آج سے ٹھیک ایک سو تریسٹھ سال قبل نو مئی 1857ء میں میرٹھ کی چھائونی میں اس کی ابتدا ہوئی جب برطانیوی فوج کی تیسری لائٹ کیولری کے سپاہیوں کو قید کی سزا سنائی گئی کیوں کہ انہوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کیا تھا جن پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس واقعے پر مشتعل ہو کر دوسرے سپاہیوں نے بھی بغاوت کردی اور پورا شہر بغاوت کی لپیٹ میں آگیا۔ میرٹھ چھائونی سے دلی چالیس میل دور تھی۔ باغی سپاہیوں نے دلی کا رُخ کیا انہوں نے کلکتہ دروازے سے داخل ہو کر فیصل بند شہر پر قبضہ کرلیا۔ لال قلعہ مغلوں کا دارالحکومت تھا۔ بہادر شاہ ظفر اب بھی وہاں تخت نشین تھے۔ اگرچہ ان کی سلطنت قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی وہ اس وقت بیاسی سال کے ہوگئے تھے ان کے شوق موسیقی، شاعری، کبوتر بازی اور مرغ بازی تھے۔ ان کا وقت ان ہی مشغلوں میں گزرتا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے وقت کے بہترین نشانہ باز شہسوار اور تیر انداز تھے۔ لیکن اب وہ ایسٹ انڈیا کے وظیفہ خوار تھے۔ سلطنت تباہ ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود اُن کی ایک علامتی حیثیت ضرور تھی۔ دلی مغل سلطنت کا مرکز رہ چکی تھی لہٰذا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اس کی طرف دیکھنا فطری تھا۔ آزادی کے لیے باغیوں نے بہادر شاہ ظفر سے مدد چاہی تو انہوں نے اپنی مجبوری اور گوشہ نشینی کا ذکر کیا مگر بالآخر انہوں نے کانٹوں کا یہ تاج پہن لیا۔ اب لال قلعہ پوری طرح باغیوں کے قبضے میں تھا۔ بہادر شاہ کے پانچویں بیٹے مرزا مغل نے کمان سنبھالی۔ جلد ہی آزادی کی لہر پڑوس کے دوسرے اضلاع اور شہروں میں پھیل گئی۔ سردھند، باغپت، بلند شہر، سہارن پور، بریلی، دام پور، امروہا، بجنور بدایوں، شاہ جہاں پور اور فرخ آباد مکمل طور پر آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ وہاں کے خزانوں اور اسلحہ خانوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس دوران انگریزوں نے دلی پر دوبارہ قبضے کے لیے کوششیں شروع کردیں، انگریز فوج نے فصیل پر گولہ باری کرنا شروع کردی۔ اتنے میں آزادی کے مجاہدوں کی ایک بڑی فوج بخت خان کی قیادت میں 22 جولائی کو دلی میں داخل ہوئی۔ بخت خان کو مرزا مغل کی جگہ باغیوں کا سپہ سالار بنایا گیا اس نے 9 جولائی کو انگریزوں پر کامیاب حملہ کیا۔ لیکن افسوس درباری سازشوں کے باعث بخت خان جیسے مستعد اور تجربہ کار جنرل کو برطرف کردیا گیا۔ یوں ایک بار پھر برطانوی فوجوں کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ 14 ستمبر کو انگریزوں نے دلی پر ایک منظم حملہ کیا ان ایام میں درباریوں کی سازشوں کے باعث بہادر شاہ نے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ رہنے کے بجائے 17 ستمبر کو قلعہ خالی کرکے ہمایوں کے مقبرے میں چلے جانے کو ترجیح دی۔ 20 ستمبر کو قلعہ خالی ہوگیا لوگ جانیں بچا کر اِدھر اُدھر چلے گئے اور انگریز قلعہ میں داخل ہوگئے۔ دوسرے دن بہادر شاہ کو ہمایوں کے قلعہ سے بغیر کسی مزاحمت کے گرفتار کرلیا گیا۔ قلعہ سے تھوڑے فاصلے پر صدیوں پرانا خونیں دروازہ ہے جہاں بہادر شاہ کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو قتل کیا گیا۔ مرزا مغل، مرزا خضر اور پوتے مرزا ابوبکر کے سر کاٹ کر تھال میں بہادر شاہ کے سامنے پیش کیے گئے اور لاشوں کو لٹکادیا گیا۔ کیپٹن ہڈسن نے بہادر شاہ کو صدمہ پہنچانے کے لیے ان کی اولاد کے سر کاٹ کر پیش کیے تو بوڑھا بادشاہ انہیں دیکھ کر جوش میں آگیا۔ افسردہ ہونے کے بجائے جوش سے کہا کہ ’’تیموری شہزادے اپنے باپ کے سامنے ایسے ہی سرخ رو ہو کر پیش ہوتے ہیں‘‘۔ آزادی کی اس جنگ میں انگریزوں نے مسلمانوں پر بڑے ظلم ڈھائے، خاص طور سے دہلی کے مکینوں پر۔ جہاں کے ہر گلی کوچہ میں خوف وہراس کا ماحول تھا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ صرف کوچہ چیلاں میں ایک دن کے اندر 1400 لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ایک انگریز اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’بوڑھوں کو قتل ہوتے دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا تھا‘‘۔
یہ جنگ آزادی مسلمانوں کے لیے بڑی ہلاکت خیز اور تباہی لانے کا سبب بنی، بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے نقل مکانی کی۔ انگریزوں
نے گائوں کے گائوں جلا ڈالے اور جگہ جگہ درختوں پر مسلمانوں کو پھانسی دینا شروع کی۔ آزادی کی جنگ میں مسلمانوں خاص طور سے علما نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ انگریزوں کو ہمیشہ اگر کوئی خوف اور ڈر تھا تو مسلمانوں کی طرف سے تھا نہ کہ ہندوئوں کی طرف سے جو تعداد میں مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے۔ ایک معروف انگریز ڈاکٹر ولیم بور نے وائسرائے کو رپورٹ بھیجی کہ 1857ء کی جنگ تو صرف مسلمانوں نے لڑی ہے، ان کے دلوں میں جذبہ جہاد ہے، ہم اس وقت تک ان پر اپنی حکومت مضبوط نہیں کرسکتے جب تک اُن کے جذبہ جہاد کو ختم نہ کیا جائے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ علما کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ کیوں کہ یہ علما ہی اُن میں جذبہ جہاد کو اُبھارتے ہیں۔ اس خطرناک اور زہریلے مشورے پر عمل کرتے ہوئے عام بغاوت پر قابو پانے کے بعد مسلم علما کے خلاف انتہائی جبر اور ظلم کی پالیسی اپنائی گئی، وحشت اور اذیت کے ساتھ ان کا قتل عام شروع کیا، ظلم کی وہ مثالیں قائم کیں کہ آج بھی انسانی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ انگریز مورخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ 1867-1864 تک 3 سال ہندوستان کی تاریخ کے المناک ترین سال تھے۔ ان تین سال میں 14 ہزار علما کو انگریزوں نے پھانسی پر لٹکایا۔ وہ لکھتا ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا کہ جس پر علما کی گردنیں لٹکتی نظر نہ آتی ہوں۔ علما کو خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے جلتے تنور میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لاہور کی شاہی مسجد میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا اور ایک ایک دن میں 80,80 علما کو پھانسی پر لٹکایا جاتا۔ یہ ہی ٹامس لکھتا ہے کہ میں دلی میں خیمے میں ٹھیرا ہوا تھا کہ مجھے گوشت جلنے کی بدبو محسوس ہوئی، میں نے خیمے کے پیچھے جا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگارے دہک رہے تھے اور ان انگاروں پر چالیس علما کو کپڑے اُتار کر ہاتھ پائوں باندھ کر ڈال دیا گیا۔ پھر اس کے بعد چالیس علما لائے گئے اور ایک انگریز افسر نے اُن سے کہا کہ ’’اے مولویوں! جس طرح ان کو آگ میں ڈال کر جلایا جارہا ہے تم کو بھی اسی طرح آگ میں جھونکا جائے گا۔ اگر تم میں سے ایک آدمی بھی یہ کہہ دے کہ ہم 1857ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تو تم کو چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔ ٹامس کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ علما آگ پر پک گئے لیکن کسی ایک مسلمان عالم نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہ جھکائی اور نہ معافی کی درخواست کی۔ تاریخ آزادی ہند میں مسلمانوں کے مثالی کردار کا ذکر کرتے ہوئے مولانا جعفر تھانیسری ’’تاریخ کالا پانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں اور جسم پر پھٹا ہوا لباس اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں، میرے ساتھ دو اور علما تھے انگریزوں نے ہم کو لوہے کے پنجروں میں بند کردیا۔ ان پنجروں کے اندر لوہے کی نوکیلی سلاخیں لگائی گئی تھیں ہم نہ تو سہارا لے سکتے تھے نہ بیٹھ سکتے تھے ہمارے پائوں اور جسم سے لہو بہتا رہتا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن جو تحریک ریشمی رومال کے بانی تھے جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی میت دیوبند لائی گئی تو غسل کے لیے میت کو تختے پر لٹایا گیا ان کی کمر سے کپڑا ہٹایا گیا تو ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ دل گداز منظر دیکھ کر لوگ رو پڑے۔ مولانا حسین احمد مدنی سے ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ ’’جب وہ مالٹا کی جیل میں پابند سلاسل تھے تو انگریز انہیں تہہ خانے میں لے جاتے اور لوہے کی سرخ گرم سلاخیں اُن کی کمر پر پھرائی جاتیں وہ بے ہوش ہوجاتے اور جب ہوش میں آتے تو وہ ایک ہی بات دہراتے کہ ’’اے انگریز! میرا جسم پگھل سکتا ہے میں سیدنا بلالؓ کا وارث ہوں تم میری چمڑی اُدھیڑ سکتے ہو لیکن میں تمہارے حق میں فتویٰ نہیں دے سکتا‘‘۔
یہ ہماری تاریخ کے وہ اوراق ہیں جن کو ہم نے فراموش کردیا۔ آزادی کا یہ دلدوز سفر بھلا ڈالا۔ ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے طاقت ور قوموں کی حاشیہ برداری سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرکے خود اپنے لیے غلامی کا جال بننے لگے۔ اس قدر دلدوز قربانیوں کے بعد آزاد پاکستان کی سرزمین آزاد وطن اس لیے حاصل کیا گیا تھا؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔