کسی رہتے بستے خاندان کا گھر مسمار کردینا اس کے سامان کو تباہ کرنا اور گھر والوں کو بے گھر کردینا دنیا میں کہیں بھی ایک بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل میں یہ اتنا ہی آسان اور سہل ہے۔ جہاں جرم بھی مسمار کیے جانے والے خاندان ہی کا بتایا جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر کے لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے۔ فلسطینی شہریوں کے گھروں کو مسمار کردینا اسرائیلی ریاست کی پالیسی بن گئی ہے۔ آئے دن غرب اردن، بیت المقدس اور شمالی فلسطین کے علاقوں میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل اسرائیلی فوج نے مقبوضہ بیت المقدس کے شمال مشرقی قصبے ’’عیسویہ‘‘ پر دھاوا بولا اور پچاس سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔ حالاںکہ گرفتار ’’عیسویہ‘‘ قصبہ کے یہودی آباد کاروں کو کرنا چاہیے تھا۔ جنہوں نے کورونا کی ساری پابندیوں کو پس پشت ڈال کر شادی کی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ جہاں صرف 2019ء میں اسرائیلی قابصوں نے مشرقی بیت المقدس کے ایک سو پینسٹھ گھر مسمار کیے طرفہ تماشا یہ کہ اسرائیلی بلدیہ کی طرف سے فلسطینیوں کو نوٹس جاری کیے گئے کہ یا تو وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر مسمار کردیں یا پھر انہیں اس کے لیے بلدیہ کو خطیر رقم دینی ہوگی کہ وہ ان کے مکان مسمار کریں۔ یعنی اسرئیلی حکام گھر بھی توڑیں گے اور پیسے بھی وصول کریں گے گھر توڑنے کے… ورنہ فلسطینی خود اپنے گھر مسمار کریں۔
اسرائیل فلسطین کو تقریباً ہڑپ کرچکا اب اردن کی طرف اس کی پیش قدمی ہے۔ غرب اردن اور وادی اردن کو ضم کرنے کے لیے امریکا اسرائیل کا متفق ہوچکا ہے۔ کورونا وائرس میں ساری عالمی برادری کی توجہ بٹتی دیکھ کر اسرائیل امریکا کی چاہت سے توسیع کے اقدامات پر بڑی تیزی سے عمل پیرا ہے۔ دوسری طرف لبنان اور شام میں بھی اسرائیلی دخل اندازی جاری ہے۔ اس بات کی شکایت لبنانی وزارت خارجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کرچکی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل لبنان کی فضائی،زمینی اور سمندری حدود کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔ لیکن اس سے اسرائیل کو کوئی فرق پڑنا مشکل ہے۔ پہلے بھی فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل بیت المقدس میں فلسطینیوں کے خلاف خطرناک نسل پرستانہ پالیسی پر عملدرآمد ہے۔ 2019ء میں تو اس پالیسی کے نتیجے میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ آج اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے اسرائیل نے فلسطینیوں کے 85 فی صد علاقے پر اپنا ناجائز قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔ 30 مارچ 1976ء میں الخلیل کے علاقے میں فلسطینیوں کی ہزاروں ایکڑ زمین پر اسرائیل نے قبضہ کیا، اس قبضے کے خلاف فلسطینی عوام نے مظاہروں اور بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کیا، بعد میں خون ریز جھڑپیں ہوئیں، فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا گیا، لیکن اقوام متحدہ کسی طرح کی کوئی داد رسی نہ کرپائی۔ اُن خون ریز واقعات کی یادمیں 30 مارچ کو یوم الارض کانام دیا گیا۔ ہر سال اس دن فلسطینی باشندے غاصب اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے اور فلسطینی سرزمین کی مکمل آزادی کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ 2018ء کے آخر تک مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعداد ساڑھے چار سو سے زائد ہے اور آبادکاروں کی تعداد تقریباً سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے یہ آباد کار فلسطینی جائدادوں پر قابض ہیں۔ اسرائیلی آبادکاروں کے گروہ فلسطینیوں کے گھروں، گائوں اور زمینوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ تین ہفتے قبل بھی آبادکاروں کے ایک گروہ نے مغربی کنارے کے جنوبی شہر نابلس کے گائوں پر حملہ کردیا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ آبادکار غیر قانونی یہودی بستی یتسہارے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے گھروں پر حملہ کیا فلسطینی نوجوان انہیں روکنے کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ اسرائیلی پولیس ان آبادکاروں کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔ اور فلسطینیوں پر تشدد کرتی رہی۔ اسی دوران یہودی فوجیوں نے رام اللہ اور خان یونس میں اپنی زمینوں پر کام کرتے فلسطینی کسانوں پر فائرنگ کردی۔
اسرائیل کی حکومت کس قدر ظالم بے انصاف اور نسل پرست ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکمران جماعت کے چیئرمین ’’میکی زوبار‘‘ نے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قید ہیں۔ کورونا وائرس کے خطرے میں فلسطینی قیدیوں کو حکومت نے کسی بھی قسم کا تحفظ فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کی صحت کی طرف سے برتی جانے والی یہ صورت حال بتاتی ہے کہ اسرائیل کی حکومت کس قدر بے انصاف، فلسطینیوں سے نفرت کرنے والی نسل پرست اور غیر انسانی برتائو کو روا رکھنے پر یقین رکھتی ہے۔ اسرائیل کے اس رویے کی پشت پر پورا مغرب ہے لیکن امریکا کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ جولائی 2019ء میں سلامتی کونسل میں فلسطینی مکانات مسمار کرنے پر مذمتی قرارداد پیش کی گئی لیکن امریکا نے اسے ناکام بنادیا اور اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کو صاف بتادیا کہ وہ اسرائیل کی مذمت میں کوئی بیان یا قرار داد کی حمایت نہیں کرے۔ اسرائیل کی ہمت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ خود مسلم حکومتیں ہیں۔ وہ فلسطین کے بارے میں متحد ہو کر اسٹینڈ لیں تو اسرائیل کو ہمت نہ ہو کہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرے اور فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے۔ موجودہ صورت حال میں جب کہ اسرائیل اردن کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا سوچ رہا ہے تو عرب لیگ نے اسی ہفتے اپنا ورچوئل اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے جس میں اسرائیل کے غرب اردن کے بعض حصوں کو ہتھیانے کے منصوبے پر غور کیا جائے گا۔ کورونا کی وبا کے باعث ورچوئل اجلاس میں وہ اسرائیلی منصوبے کے مقابلے میں فلسطینی قیادت کو سیاسی قانونی اور مالیاتی حمایت مہیا کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ دنیا کو ایک نئی کشیدگی کی طرف لے جانے کا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اس معاملے میں سر جوڑ کر سنجیدگی سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اس مہلک وبا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔