کراچی میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی کیا ہائی کورٹ یا اقوام متحدہ سے حاصل کریں،محسن شیخانی

988

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی نے کہا ہے کہ تعمیراتی منصوبے کے لیے متعلقہ اداروں سے 18 این او سیز لینے کے باوجود غیر قانونی قرار دے کر کراچی میں عمارتیں گرائی جارہی ہیں تو بتایا جائے کہ تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی ہائی کورٹ یا اقوام متحدہ سے حاصل کریں،

یہ بات انھوں نے آباد ہاؤس میں سیلانی انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین مولانا بشیر احمد فاروقی کے اعزاز میں دی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر آباد کے سینئر وائس چیئرمین سہیل ورند،وائس چیئرمین عبدالرحمٰن،چیئرمین سدرن ریجن محمد علی توفیق رتاڑیا،آباد کے سابق چیئرمین محمد حنیف گوہر،انور گاگئی،عارف جیوا سمیت افضل چمادیا ودیگر بھی موجود تھے،

محسن شیخانی نے کہا کہ تعمیراتی منصوبے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورکرکے عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اس کے باوجود غیر قانونی قرار دے کر عمارتیں گراکر کراچی کے شہریوں کو بلڈرز اور ڈیولپرز کا دشمن بنایا جارہا ہے،

چیئرمین آباد نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئیں عمارتوں کو گرانے کے احکام جاری کیے ہیں جن میں آباد کے 4 ممبران کے رائل آئیکون سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں،انھوں نے بتایا کہ رائل آئیکون سمیت دیگر منصوبے تعمیر کرنے سے قبل پلان کی منظوری سمیت تمام متعلقہ اداروں سے 18 این اوسیز حاصل کی گئی تھیں اس کے باوجود رائل آئیکون کو مسمار کیا گیا ہے،

جس کے نتیجے میں سیکڑوں الاٹیز جنھوں نے لاکھوں روپے دے کر بکنگ کرائی تھی وہ زندگی کی کمائی لٹ جانے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح سے کراچی کے شہریوں کو بلڈرز اور ڈیولپرز کے خلاف کیا جارہا ہے،محسن شیخانی نے کہا کہ ایس بی سی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں سے این او سیز حاصل کرنے اور کروڑوں روپے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ہمارے کام کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ تعمیراتی منصوبے کے لیے ہائی کورٹ یا اقوام متحدہ سے این سی لیں،

انھوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کی سرگرمیوں سے 70 ذیلی صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار میسر آتا ہے جس سے ملکی معیشت کو بھی فروغ ملتا ہے۔تعمیراتی شعبے کو دنیا بھر میں مدر انڈسٹری سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں تعمیراتی شعبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا اور اس کی ترقی میں رکاؤٹیں کھڑی کی جارہی ہیں،

محسن شیخانی نے کہا کہ سرکاری اداروں میں کرپشن کے باعث قانونی طور پر کام کرنے والے آباد کے ممبر بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں تو دوسری جانب غیر قانونی تعمیرات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر متعلقہ اداروں کے افسران کی ملی بھگت سے بلند عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں،

کراچی میں غیر قانونی طور پر اور ناقص مٹیریل سے بننے والی عمارتوں سے 10 لاکھ افراد کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں جس کی آباد وزیرا علیٰ سندھ،چیف سیکریٹرسندھ سمیت دیگر متعلقہ محکموں کو خطوط کے ذریعے آگاہی دے چکا ہے،

محسن شیخانی نے کہا کہ ہم وزیر اعظم،چیف آف آرمی اسٹاف،چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ کراچی کے تعمیراتی شعبے رحم کھایا جائے اگر یہی حالات رہے تو کراچی کے بلڈرز اور ڈیولپرز اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے،
چیئرمین آباد نے کہا کہ جلد پریس کانفرنس کرکے مستقبل کا لانحہ عمل طے کریں گے۔محسن شیخانی نے پاکستان بھر میں فلاحی کاموں پر سیلائی انٹرنیشنل ٹرسٹ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فلاحی ادارے ملک میں نہ ہوتے تو بہت مسائل پیدا ہوجاتے جن پر قابو پانا ریاست کے لیے بھی مشکل ہوجاتا،

اس موقع پر مولانا بشیر احمد فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں تعمیراتی شعبے کو در پیش مسائل کے حل کے لیے آباد کے شانہ بشانہ ہیں،

کراچی میں قانونی طور پر تعمیر کی گئیں عمارتوں کی مسماری کے حوالے سے مولانا بشیر احمد فاروقی نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان،چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ،چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد سے ملاقات کرکے اسلام آباد اور بنی گالا والوں کی طرح کراچی کے تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے اپیل کریں گے،

آخر میں سلائڈ کے ذر یعے سیلانی انٹرنشنل ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت پاکستان بھی میں رہائش،تعلیم سمیت دیگر فلاحی کاموں پر شرکا ء کو بریفنگ دی گئی۔