مہنگائی پر عوام گھبرائیں نہیں

1045

 وفاقی محکمہ شماریات (FBS) جس کا کام ملک میں سماجی معاشرتی رہائشی حوالوں سے مختلف امور کے اعداد و شمار جمع کرنا ہے کہ آج کے دور میں تقریروں اور تجزیوں میں فی صد، تناسب، شرح ترقی وغیرہ کی اصطلاحات زیادہ استعمال کی جاتی ہیں اور موازنے اور اضافے کے لیے جابجا ان کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اس محکمہ نے جنوری کے آخر میں یہ دھماکا خیز خبر پاکستانی عوام کو سنائی ہے کہ پچھلے سال جنوری کے مقابلے میں اس سال جنوری میں مجموعی طور پر قیمتوں میں 14.6 فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اگست 2018ء میں جو مہنگائی کی شرح 5.8 فی صد تھی اب یہ شرح 14.6 فی صد تک جا پہنچی ہے اور اس میں سب سے زیادہ اضافہ کھانے پینے کی اشیا میں ہوا ہے جن میں گندم، آٹا، میدہ، دالیں، چینی، کھانے کا تیل، مرغی اور انڈے وغیرہ شامل ہیں۔
14 فی صد مہنگائی جس میں غریب عوام جن کا تعلق محدود اور مستقل آمدنی والے طبقے سے ہے وہ اس صورت حال میں پس کر رہ گئے ہیں اور تقریباً 18 فی صد مزید پاکستانی آبادی غربت کے اندھیروں میں چلی گئی ہے۔ اس پر حکومتی وزرا اور مشیران کرام غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جب کہ ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز انتہائی خود غرضی اور بے حسی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کوششیں کررہے ہیں جن کی زیادہ تر تعداد کروڑ پتیوں پر مشتمل ہے۔ جہاں تک حکومتی ردعمل کا تعلق ہے وزیراعظم عمران خان کا ارشاد ہے کہ وزرا کے چہرے مہنگائی سے اُترے ہوئے ہیں وہ گھبرائے نہیں میں ان مافیاز کا مقابلہ کررہا ہوں جو مہنگائی کررہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو مہنگائی اور عوام کی تکلیف کا احساس ہے اس کے ذمے دار وہ ہیں جو ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔ اسد عمر اعتراف کرتے ہیں کہ عوام شدید مہنگائی کی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن کوئی حل اُن کے پاس بھی نہیں ہے۔ حکومتی حلقوں سے مافیاز کا نام لیا جارہا ہے لیکن وہ ہیں کون لوگ نام کسی کی زبان پر نہیں آرہا۔
پاکستان میں ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ شوگر کا کاروبار جن کے ہاتھ میں ہے اُن میں خسرو بختیار اور جہانگیر ترین حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں جو گنے کے کاشتکاروں سے اُن کی بے بسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کم قیمت پر گنا خریدتے ہیں اور بڑی مشکل سے اس کی قیمت ادا کرتے ہیں اور مہنگے داموں چینی فروخت کرنے میں اس سے آگے بڑھتے ہوئے وہ ملک میں چینی کا بحران پیدا کرنے میں ماہر ہیں۔ حکومت سے سبسڈی لے کر رعایت کا فائدہ اٹھا کر چینی برآمد کرتے ہیں اور اگر حکومت چینی درآمد کرنے کا ارادہ کرے تو اس میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ اسی مافیا نے چینی فی کلو کی قیمت 60 روپے سے 89 روپے تک پہنچادی ہے، اب حکومت نے چینی درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دیکھیں اس پر کب تک عملدرآمد ہوتا ہے اور چینی کی قیمتیں نیچے آتی ہیں یا نہیں۔
اسی طرح کا معاملہ گندم اور آٹے کی قیمتوں کا ہے۔ پچھلے سال جون کے مہینے ہی میں اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی (ECC) کی میٹنگ میں غذائی تحفظ اور تجارت کی وزارتوں نے یہ اندیشہ ظاہر کردیا تھا کہ ملک میں گندم کی قلت ہوسکتی ہے۔ جولائی میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ گندم کی برآمد روک دی جائے اس کے باوجود طاقتور گندم مافیاز کے باعث برآمد رُک نہ سکی اور ستمبر اکتوبر تک برآمد جاری رہی۔ اس کے بعد جب برآمد روکی گئی تو صرف گندم کی برآمد چھوڑ کر گندم سے بننے والی اشیا مثلاً سوجی، میدہ اور فائن آٹے کی برآمد جاری رہی۔ پھر یہ کہ اُن مختلف اشیا کی برآمد کتنی ہوئی اس کے اعداد و شمار کسٹم انٹیلی جنس، پاکستان بیورو آف اسٹیسکٹس اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا مختلف ہیں دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ گندم اور اس سے بننے والی اشیا کتنی برآمد کی گئیں۔ اس کے بعد 300 کنٹینرز کا اسکینڈل سامنے آگیا کہ ان کنٹینرز کے ذریعے برآمد ہونے والی اشیاء بغیر کسی ڈیوٹی بائیکس کے ملک سے باہر چلی گئیں اور اس طرح سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس طرح پنجاب میں گندم کی قلت کی وجہ وزیراعلیٰ کا وہ دفتر ہے جہاں سے گندم سے متعلق اس عملے کا ٹرانسفر کردیا گیا جو مختلف مشیروں اور قصبوں میں گندم کے اسٹاک کے ریکارڈ کی نگرانی پر مامور تھا اس عملے کو ہٹا کر من پسند لوگوں کو وہاں تعینات کردیا گیا اور اس طرح گندم کے اسٹاک میں ہیرا پھیری کی گئی۔ اب حکومت عوام کو مہنگائی کے معاملے پر یہ تسلی دے رہی ہے کہ گھبرائیں نہیں مگر وہ طاقتور لوگ جنہوں نے گندم اور چینی کی قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کیا اور راتوں رات کروڑوں روپے کمالیے اُن کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟۔