پاکستان معیشت پر اسٹیٹ بینک کا حالیہ تبصرہ

716

 28 جنوری 2020 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے موجودہ گورنر ڈاکٹر باقر رضا نے آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود کے اعلان کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ اس سے سب سے اہم بات تو شرح سود ہے جسے 13.25 فی صد جو گزشتہ چار ماہ سے جاری ہے اور اس مرتبہ یہ اُمید کی جا رہی تھی کہ اس میں کمی کی جائے گی مگر اسے آئندہ دو ماہ کے لیے برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اطمینان بھی دلایا گیا کہ معیشت میں استحکام اور بہتری آ رہی ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں 75 فی صد کے ساتھ اس کا حجم صرف 2.15 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ مارکیٹ کی بنیاد پر شرح مبادلہ کی پالیسی کامیاب رہی ہے اور روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر جو جولائی 2019 میں 7.25 ارب ڈالر تھے اب جنوری 2020 میں 11.73 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ لارج اسکیل صنعتوں میں برآمدی صنعتیں مثلاً ٹیکسٹائل، سیمنٹ، چمڑا اور انجینئرنگ کے سامان میں ترقی ہوئی ہے جبکہ اندرون ملک میں کاروبار کرنے والی صنعتیں مثلاً الیکٹرونکس، آٹو موبائل اور کیمیکل وغیرہ میں گراوٹ آئی ہے۔ سرمائے میں کمی اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی رہی ہے فی الحال اس میں کمی کا امکان نہیں مگر چار سے چھ ماہ میں 5-7 فی صد تک کمی آ سکتی ہے معاشی سست روی بہت نیچے پہنچ چکی ہے لیکن اب بہتری کا امکان ہے۔ مالیاتی پالیسیاں درست سمت میں جا رہی ہیں اور اب آئی ایم ایف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کا اندازہ 3.5 فی صد تھا لیکن اب اس میں کمی کرنا ہو گی۔ برآمدات میں اضافے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کے باعث بیرون شعبہ میں استحکام آیا ہے، شرح سود مہنگائی کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو یہ زیادہ نہیں ہے بلکہ مناسب ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی اس خیال آرائی پر پاکستان میں حیرانی، تعجب اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ان میں ماہرین معاشیات اور کاروباری برادری سب ہی شامل ہیں۔ مثلاً پہلی بات تو یہ ہے کہ جب آپ معاشیاتی صورتحال میں بہتری کے انداز ے لگا رہے ہیں اور عوام کو تسلی بھی دے رہے ہیں کہ قلیل مدت میں مہنگائی میں کمی آجائے گی لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی ہو گی حالانکہ معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک واضح تضاد ہے جس کا جواب گورنر اسٹیٹ بینک کے ذمے ہے دوسرا اعتراض یہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ جب ملک کی معیشت سست روی (recession) کا شکار ہے صنعتی پیداوار کم ہو رہی ہے، روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو نیچے کی طرف جا رہی ہو ایسے میں وسعت پزیر زرعی پالیسی (expansionary monetary policy) اختیار کی جاتی ہے جس میں سب سے اہم شرح سود میں کمی کرنا ہوتی ہے تا کہ کاروباری لوگ شرح سود پر قرضہ لے کر کاروبار کریں اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے۔ دوسرے الفاظ میں ایک طرف آپ خود کہہ رہے ہیں کہ معیشت سست روی کا شکار ہے اور آپ اپنی پالیسیوں کے باعث اسے فعال کرنے کے بجائے مزید سست کر رہے ہیں ایک شخص ویسے بھی سستی، غنودگی اور اونگھنے کی حالت میں ہے اور آپ اسے مزید نیند کا انجکشن لگا رہے ہیں اس طرح وہ شخص اٹھ کر کھڑا ہونے کے بجائے بے ہوش ہو جائے گا۔
اس طرح تمام ہی کاروباری تنظیمیں اور انجمنیں سب سے نمایاں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) ہے۔ سب نے اسٹیٹ بینک کے اس پالیسی بیان کی شدید مذمت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ بلند شرح سود لوہے، بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ اور ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث انڈسٹری چلانا مشکل ہے۔ حالیہ شرح سود سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی اس وقت انڈیا میں شرح سود 5.15 فی صد ہے 4.35 فی صد، ملائیشیا میں 3.0 فی صد، تھائی لینڈ میں 1.25 فی صد اور انڈونیشیا میں 6.0 فی صد ہے جبکہ پاکستان میں 13.25 فی صد ہے۔ اسی شرح سود کے باعث غیر فعال قرضوں میں 23 فی صد اضافہ ہوا ہے اور نجی شعبوں کو قرضوں میں کمی آئی ہے کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ غریب کا چولہا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور گورنر اور وزیراعظم عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ گھبرانا نیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔