کتوں سے محبت کرنے والی حکومت

1012

ہمارے ملک کے ایک مشہور صحافی نے وزیر اعظم کی سابقہ بیوی سے اختلاف کی وجوہات کی قسط وار کہانی ایک اخبار میں شائع کی تھی، انہوں نے ایک وجہ وزیر اعظم اور ان کی سابقہ اہلیہ کے کتوں کے درمیان ہونے والی لڑائی بیان کی، وزیر اعظم کو اپنا کتا بہت پسند تھا لیکن ان کے کتے کو ان کی بیوی کا کتا پسند نہیں آیا اس طرح ان دونوں کتوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی، پھر اور بھی وجوہات تھیں جس سے یہ شادی قائم نہ رہ سکی۔ میں نے یہ موضوع اس لیے چھیڑا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے جب سے سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت قائم ہوئی ہے کتے کے کاٹنے کی خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں۔ اور اس سے پہلے بھی اسی پارٹی کی حکومت تھی ایک اخبار کی خبر کے مطابق پچھلے دو سال میں صوبہ سندھ میں دولاکھ سے زائد افراد کو کتوں نے کاٹ کھایا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہماری صوبائی حکومت میں جو چیزیں ہمیشہ سے نان اشو رہی ہیں وہ ایک اشو بن جاتی ہیں پولیس اور صوبائی حکومتوں میں کبھی کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا لیکن پی پی پی کی صوبائی حکومت میں یہ ایک اشو بنا ہوا ہے۔ کتے تو ہمیشہ سے لوگوں کو کاٹتے تھے لیکن وہ روٹین میں کم تعداد اور بروقت اسپتالوں میں ویکسین کی فراہمی اور بلدیاتی اداروں کی اس حوالے سے کارکردگی کی وجہ سے کبھی کوئی اشو نہیں رہا لیکن پچھلے دو تین برسوں سے یہ مسئلہ سندھ کے عوام اور بالخصوص کراچی کے عوام کے لیے سوہان روح بن چکا ہے۔
میں یہاں عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس جن کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کا بچپن بھی اسی شہر میں گزرا کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے بچپن یا لڑکپن کا آنکھوں دیکھا حال بیان کررہا ہوں جس کی یقینا وہ خود بھی گواہی دیں گے۔ میں گھر میں تھا باہر بچوں کا شور سنا گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بلدیہ کی کتوں کو پکڑنے والی گاڑی آئی ہوئی ہے اور کتے پکڑنے والے اہلکار ایک خاص لباس پہنے کتوں کی پیچھے بھاگ رہے ہیں، محلے کے بچے بلدیہ کے کارکنوں کا ساتھ دے رہے ہیں ان کارکنوں کے ہاتھ میں ایک بڑی سی قینچی نما سنسی ہوتی تھی وہی سنسی جو ہمارے گھروں میں چھوٹے سائز کی گرم پتیلیوں کو چولھے سے نیچے اتارنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اسی طرح کی بڑی سی سنسی سے وہ کتوں کے گردن میں ڈال کر گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لاتے تھے اور انہیں بند گاڑی کے اندر پھینک دیتے اندر اور بھی کتے ہوتے جن کے بھونکنے کی آوازیں سب سنتے، ان کتوں کو گھیر کر بلدیہ کے کارکنوں کو پکڑنے میں آسانی فراہم کرنے کا کام محلے کے بچے کرتے تھے، یہ سلسلہ ہر چار چھے ماہ بعد دیکھنے میں آتا تھا تھوڑے عرصے بعد ایک تبدیلی یہ آئی جب ان کتوں کو پکڑ کر گاڑی کے قریب لایا جاتا تو وہاں بلدیہ کا ایک کارکن بندوق لیے کھڑا ہوتا جو اس کتے سر پر گولی مار کر اسے ہلاک کردیتا اور پھر اسے گاڑی میں پھینک دیا جاتا اس طرح سے گاڑی کے اندر سے کتوں کے بھونکنے کا شور ختم ہو جاتا۔ جو لوگ کتے پالتے تھے ان کے لیے یہ ہدایت تھی کہ وہ اپنے کتے کے گلے پٹا ڈال کر رکھیں۔
اب پچھلے پندرہ بیس سال سے اس طرح سے کتوں کو پکڑنے کا سلسلہ تو ختم ہو گیا، اب خاکروبوں کو زہریلی دوائیں دی جاتی ہیں کہ وہ اسے مٹھائی میں ملا کر کھلائیں اور جب وہ مرجائیں تو انہیں ایک جگہ جمع کرکے اٹھا لیا جائے۔ اب پچھلے کئی برسوں سے کتے پکڑنے کا کام نہیں ہو رہا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کسی این جی او نے عدالت میں اس ’’ظلم‘‘ کے خلاف مقدمہ دائر کیا کتوں پر یہ ظلم بند کیا جائے کہ انہیں جان سے مار دیا جائے عدالت نے کوئی حکم امتناع تو جاری نہیں کیا بلکہ شاید متعلقہ اداروں سے اس حوالے سے ان کا موقف معلوم کیا،ان اداروں نے کوئی جواب دیا نہ دیا یہ اللہ بہتر جانتا ہے البتہ اس عدالتی کارروائی کو بہانہ بنا کر ہمارے بلدیاتی ادارے جن کا کام کتوں کو پکڑنا تھا آرام کی چادر تانے سو رہے ہیں اور کئی برسوں سے کتوں کو پکڑنے کا کام نہیں ہو رہا ہے اس کی وجہ سے گلی محلوں کتوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے بچوں اور خواتین کا گھر سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے صبح فجر کے وقت نمازیوں کو یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ وہ سناٹے میں گلی سے گزر رہے ہوں اور کسی گاڑی کے نیچے سے کوئی کتا بھونکتا ہوا نکل آئے اور ان کو دوڑ لگانا پڑجائے۔
ہمارے وزیر اعلیٰ سندھ جتنی قوت سے آئی جی سندھ کے پیچھے لگے ہوئے اس کی آدھی قوت وہ سندھ میں کتوں کے پیچھے لگا دیں تو کئی جانیں بچ سکتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمیں اب تک جو بھی حکمراں میسر آئے ان میں الا ماشاء اللہ ابتدائی حکمرانوں کو چھوڑ کر پچھلے تیس چالیس برس جو لوگ ہم پر حکومت کرتے رہے وہ عوام کے لیے کم اور اپنی آئندہ کی نسلوں کے لیے زیادہ سوچتے رہے ورنہ عوام سے محبت کرنے والی حکومتیں ہمیشہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر اپنی توانائیاں صرف کرتی ہیں۔ لیکن جو پارٹیاں اپنے خاندانی اور جماعتی مفاد کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں انہیں عوام کی تکلیفوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا، اب یہی کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہونیوالوں کا مسئلہ دیکھیے جو صرف کراچی ہی کا نہیں بلکہ پورے سندھ کا مسئلہ ہے، لیکن ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں کہ اکثر یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ سندھ کے اسپتالوں میں اس کی ویکسین نہیں ملتی اور لوگ پریشان ہو کر شہر کے اسپتالوں کی طرف بھاگتے ہیں ویکسین کے حوالے سے یہ خبریں بھی آچکی ہیں کہ اس ویکسین کو درآمد کرنے کا ٹھیکہ سندھ کی ایسی بااثر شخصیت کے پاس ہے جن سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے بھی پر جلتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر اس کی قلت پیدا کی جاتی ہے کہ اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے، پھر عدالت سے اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے حکومت سندھ ہی کو کوئی کارروائی کرنا پڑے گی۔ دوسری ایک تجویز جو اکثر حکمران طبقے کی طرف سے آتی ہے کہ کتوں کو ایسے انجکشن لگائے جائیں گے جن سے ان کی نسل نہیں بڑھ پائے گی سوال تو یہ ہے کہ پہلے سے جو ان کی تعداد بڑھی ہوئی ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے گا، کتوں کو مارنے پر یہ کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اس صوبے میں اور بالخصوص شہر کراچی میں تیس سال سے ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ہزاروں بے قصور افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ان پر تو ہمارے حکمرانوں کا کبھی دل نہیں پسیجا کتوں کو مارنے پر انہیں رحم آتا ہے۔ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں چین، کوریا، فلپائن جہاں کتے کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے ان ممالک کوہم کتے برآمد بھی کر سکتے ہیں۔
بھارت میں بندروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہاں کے شہری ان سے ہر وقت پریشان رہتے ہیں لیکن چونکہ وہاں بندروں کو مقدس درجہ حاصل ہے یہ ہندوئوں کے ہنو مان جی ہیں اس لیے یہ بندر شہریوں کا چاہے جتنا ہی نقصان کر دیں کوئی انہیں مار نہیں سکتا، ایک دفع بمبئی شہر کے ایک پارک میں ایک مسلم فیملی کو وہاں ایک بندر نے کوئی نقصان پہنچایا تو جواب میں جب اس خاندان کے سربراہ نے بندر کو مار کر بھگایا تو اس پر پارک میں موجود ہندو مشتعل ہو گئے اور انہوں نے اس مسلم فرد کی پٹائی شروع کردی اس کو کوئی بچانے والا بھی نہیں تھا اس کے بیوی بچے رو رہے تھے، اتفاق سے حاجی مستان کا کوئی بندہ وہاں آیا ہوا تھا (حاجی مستان معروف اسمگلر تھا اور اس وقت پورے بمبئی میں اس کی توتی بولتی تھی) اس نے جب فائرنگ کی تو ہندوئوں نے اس مسلمان کو چھوڑا اور بھاگ لیے جب کہ ان کے ہنومان جی پارک سے باہر ہی چلے گئے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ان ہی بندروں کی برآمدات سے بھارتی حکومت اربوں ڈالر سالانہ کماتی ہے، جب بھارتی حکومت اپنے خدا کو بیچ سکتی ہے تو ہم کتوں کی تجارت کیوں نہیں کرسکتے۔