پاکستان میں انسانی وسائل کی تنزلی

520

دنیائے معیشت کی تاریخ میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) ایک اہم باب جو اٹھاریوں صدی کے وسط سے برطانیہ سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ تمام یورپی ممالک اور امریکا تک پھیل گیا۔ اس انقلاب کی اہم خصوصیت پیداواری عمل میں مشینوں کا داخلہ تھا، کارخانوں میں جو کام مزدوروں کے ہاتھوں سے ہوتے تھے اب مشینوں کے ذریعے ہونے لگے، نتیجتاً پیداوار پہلے ہفتہ یا پندرہ دن میں ہوتی تھی اب گھنٹوں میں ہونے لگی۔ پیداوار کی بہتات سے ان ممالک کو بیرونی منڈیوں کی تلاش ہوئی اور اس طرح غریب اور کمزور ممالک کو کالونی بنانے کا عمل شروع ہوا۔ کارخانوں میں مشینیں آجانے اور اشیا کی پیداوار میں اضافے کے بعد کارخانوں کے مالکان کے لیے مشینوں کی اہمیت بڑھ گئی اور مزدور بھی اُن کے نزدیک ایک مشین کی حیثیت اختیار کرگئے۔ مزدور کے ذاتی مسائل، ان کی اہمیت اور ان کی مشکلات سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا، مزدوروں کی اہمیت اُن کی پیداواری صلاحیت اور جسمانی قوت کی بنیاد پر ہوتی تھی، یہاں تک کہ اجرتوں کا تعین پیداواری تعداد سے ہوتا تھا اور مزدوروں کے ساتھ وہ یہ بھی انتہائی بے رحمانہ، گستاخانہ اور غیر انسانی ہوا کرتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماہرین اور محققین نے مزدوروں، محنت کشوں اور کاریگروں کی پیداواری صلاحیت و استطاعت پر تحقیق، تجزیے اور تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی طاقت و قوت کے ساتھ ساتھ کارخانوں میں بہترین پیداوار کے لیے کام کرنے والوں کے لیے تعلیم، تجربہ، سمجھ بوجھ، نظم و ضبط، کام کرنے کی لگن و ہمت کی بڑی اہمیت ہے۔ چناںچہ مزدوروں میں تمام خصوصیات کو ملا کر اس مجموعے کو انسانی وسائل یا انسانی سرمایہ (human resource) کا نام دیا گیا۔ مزید تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ مصنوعات کی تیاری میں دو طرح کے سرمایے اہم ہیں ایک انسانی سرمایہ اور دوسرا طبعی سرمایہ (physical capital)۔ اور اگر مصنوعات کی مالیت کے لحاظ سے تخمینہ لگایا جائے تو طبعی سرمایے کے مقابلے میں انسانی سرمایے کا زیادہ حصہ ہے۔ اس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں اس بات پر زور دیا جانے لگا کہ انسانی وسائل کو بہتر کرنے، ان کے معیار کو بلند کرنے، انہیں ترقی دینے اور ان میں اضافہ کرنے کی کوششیں کی جائیں، اقدامات کیے جائیں اور منصوبے بنائے جائیں، کارخانوں، فیکٹریوں، تجارتی اداروں کے مزدوروں کی تعلیمی، فکری، تیکنیکی اور ذہنی تربیت کے لیے آج کل سیمینارز ٹریننگ سیشن اور ورکشاپ منعقد کیے جارہے ہیں تاکہ انسانی وسائل کو بہتر سے بہتر کیا جائے۔
پھر یہ غور و فکر شروع ہوا کہ انسانی وسائل میں بہتری، بلندی اور ترقی کی پیمائش کیسے کی جائے کیوں کہ پیمائش ہی سے آپ یہ پتا لگا سکتے ہیں کہ کس ملک میں انسانی وسائل بلندی پر ہیں اور کس ملک میں پستی پر ہیں۔ کس ملک میں انسانی وسائل وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی طرف جارہے ہیں اور کس ملک میں ایک ہی سطح پر ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق اور انڈیا کے امرتا سین نے مل کر 1990ء میں ایک اشاریہ (index) وضع کیا جسے بعد میں انسانی ترقی کا اشاریہ ہے۔ (human development index) کا نام دیا گیا۔ اس اشاریے میں فی کس شرح آمدنی، شرح خواندگی اور اوسط متوقع عمر کو شامل کیا گیا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں یہ اشاریہ دنیا بھر میں مقبول ہوگیا اور ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مطابق اپنے باشندوں کے معیار میں بہتری لائے تاکہ اس کے ملک کا انسانی سرمایہ بہتر سمجھا جائے۔ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ یو این ڈی پی (UNDP) ہر سال دنیا کے تمام ممالک کی انسانی وسائل کی ترقی کی ایک رپورٹ شائع کرتا ہے۔ جو اسی ’’اشاریے‘‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے جسے مختصراً (HDI) کہتے ہیں اور اس کی مقدار 0-1 کے درمیان ہوتی ہے۔ سال 2018ء کے اعداد و شمار کی بنیاد پر انسانی وسائل کی ترقی 2019ء کی رپورٹ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے تیار کرنے والوں نے اسی حقیقت پر بہت زور دیا ہے۔ دنیا میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اوسط پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ مثلاً اوسط آمدنی، اوسط عمر، اوسط تعلیم جیسے الفاظ عدم مساوات کو صحیح طرح واضح نہیں کرتے۔ مثلاً ایک ملک میں ایک مخصوص طبقے کی آمدنی بہت بڑھ جائے اور باقی آبادی غریب ہو تب بھی اوسط آمدنی میں اضافہ ہی ظاہر ہوگا۔
اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان اس درجہ بندی میں 153ء سے 152نمبر پر آگیا ہے اور جنوبی ایشیا کے تمام ممالک مثلاً نیپال، بھوٹان، بنگلادیش، انڈیا، سری لنکا اور اس کے ساتھ ساتھ ایران بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ اور پاکستان کی 38 فی صد آبادی کسی نہ کسی لحاظ سے شدید غربت کا شکار ہے۔ تعلیم، صحت اور فی کس آمدنی جیسے معاملات میں پاکستان بجائے آگے آنے کے پیچھے کی طرف چلا گیا ورنہ کچھ عرصہ پہلے نیپال اور بھوٹان جیسے انتہائی پس ماندہ ممالک پاکستان سے پیچھے تھے اب وہ بھی آگے نکل گئے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ رپورٹ بہت بڑا چیلنج ہے اور اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ایسے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئیں کہ پاکستان اس درجہ بندی میں آگے آسکے۔