وکلا، طلبہ اور ڈاکٹرز کیا معاشرے کا ناسور بن گئے ہیں؟

685

سید محمد اشتیاق
پاکستانی ریاست تیزی سے ایک نیولبرل بنتی جارہی ہے نیولبرل ازم وہ سرمایہ دارانہ حکمت عملی جس میں ریاست کو مارکیٹ کا آلہ کار بنادیا جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد وجود اس کے نیولبرل دور میں محض سرمایہ کی بڑھوتری ہوجاتا ہے۔ نیولبرل ازم کا عروج لبرل ازم کی جزوی توسیع بھی ہے اور اس کے زوال کا اظہار بھی۔ نیو لبرل مفکرین سرمایے کے بڑھتے ہوئے ارتکازی رحجان اور ریاستی ذرائع سے سرمایے کی معاشرتی تحکیم کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ تمام معاشرتی تعلقات کو مارکیٹی مسابقت کے واحد اصول کی بنیاد پر مرتب کرنے کے وکیل ہیں ان کی رائے میں پورے معاشرے کو ایک صارفی جمہوریت کی شکل اختیار کرلینی چاہیے۔
نیولبرل نظریے کے مطابق مارکیٹ کو ریاست پر حکومت کرنی چاہیے۔ مارکیٹی تحکیم کا ایک اہم اظہار اسٹیٹ بینک کی ریاست سے آزادی ہے۔ اس آزادی کے فروغ کے ذریعے قومی اسٹیٹ بینک کو عالمی سود اور سٹے کے بازاروں کا غلام بنایا جاتا ہے اور ان پر رضا باقر جیسے عالمی سرمایے کے نمائندے مسلط کیے جاتے ہیں۔
ہر نیولبرل ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جو مارکیٹی مسابقت کو اپنے اصل الاصول کے طور پر قبول کرتی ہے۔ لازماً اپنی رعایا کے اعتبار سے محروم ہوتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ مارکیٹی مسابقتی تحکم بحیثیت ریاستی اصل الاصول کے نہایت غیر فطری ہے۔ نیو لبرل ریاست میں لازماً سرمایہ دارانہ ظلم بڑھتا چلاجاتا ہے۔ کیونکہ مارکیٹی مسابقت کی اصول کی بنیاد پر مرتب کار فرمائی معاشی عدم مساوات اور سیاسی جبر دونوں کو مستقل فروغ دیتے رہتے ہیں۔ اجارہ داریوں کا فروغ اور مارکیٹی تحکم کی عمومیت ایک سکے کے دورخ ہیں۔
نیو لبرل ریاست سود اور سٹے کے بازاروں کی غلام ہوتی ہے وہ ایک ایسی اقتصادیات کا سہارا لیتی ہے جہاں اس کے شہریوں کا معاشی تحفظ کا دارومدار سود اور سٹے کے بازاروں کے اتار چڑھائو پر منحصر ہوتا چلاجاتا ہے۔ دولت کھنچ کھنچ کر اشیا کے پیداواری مراکز سے نکل کر سود اور سٹے کی مارکیٹوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی اور چونکہ ان مارکیٹوں کی تمام تر کارفرمائی کا دارومدار ظن اور تخمینہ پر ہوتا ہے لہٰذا ان میں بحران آنے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔
سود اور سٹے کے پھیلائو کا مطلب قرضوں کی عالمگیریت ہے۔ نیو لبرل ریاست کا ہر شہری اور خود نیو لبرل حکومت زیادہ سے زیادہ مقروض ہوتی چلی جاتی ہے۔ آج عمران خان کی حکومت دھڑا دھڑ بیرونی اور ملکی سودی قرضہ لے رہی ہے۔
ضیا الحق مرحوم کی شہادت کے بعد سے آج تک پاکستان کے تمام حکمران نیولبرل سامراج کے پٹھو آلہ کار رہے ہیں۔ اپنے سامراجی آقا کے ایما پر یہ پٹھو حکمران پچھلی تین دہایوں سے پاکستانی ریاست کو مسمار کررہے ہیں۔ آج عمران خان یہ کام کررہا ہے کل یہی کام نواز شریف اور بے نظیر، زرداری نے کیا تھا۔ یہ دہریہ پٹھو حکمران معاشرہ کے ہر شعبہ، تعلیم، اصلاحات، پیدوار، تمویل، مراسلت، صحت اور ماحولیاتی تحفظ میں سرمایہ اور مارکیٹی مسابقت کی بنیاد پر تنظیم سازی کررہے ہیں۔ ریاست کی حاکمیت سرمایہ کی حاکمیت کے سوا کچھ نہیں رہ گئی۔ لبرل قانون سازی مسابقتی مارکیٹی اصول کارفرمائی کو معاشرتی عمل پر مکمل طور پر مسلط کرنے کا ذریعہ ہے۔ ہر وہ معاشرتی عمل جو مارکیٹی مسابقت کے اصول کے زیر نگیں نہیں لایا جاسکتا نیولبرل ریاست اس کو جبراً منہدم کردیتی ہے۔
پاکستانی نیولبرل ریاست کا دارومدار سامراجی سرمایہ دارانہ نظام پر بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سامراجی سرمایہ داری آج کل عالمی اجارہ داریوں کا ایک ایسا نیٹ ورک جو پوری دنیا میں اشیا کی زنجیروں (Commodity Chains) میں بندھا ہوا ہے اور جس نیٹ ورک کو ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ مراکز کے سود اور سٹے کے بازار منظم کیے ہوئے ہیں۔
یہ عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام سودی بچتوں کی بہتاتاور پیداواری شرح نمو کے انحطاط کے رحجانات رکھتا اور اس میں گاہے گاہے مالیاتی بحران آتے رہتے ہیں علمی اجاراداریاں اور سامراجی حکو متیں پسماندہ ممالک سے وسائل بچتوں، منافع اور ٹیکسوں کی شکل میں عالمی سود اور سٹے کے بازاروں میں مستقلاً منتقل کرتی رہتی ہیں اور پسماندہ ممالک کے قرضے مستقل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ تمام دنیا میں عدم مساویت اور عدم استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے۔
پاکستانی ریاستی دہریہ اشرافیہ آئی ایم ایف کا سہارا لیکر اس ملک پر عالمی سامراجی سرمایہ داری کی گرفت مستحکم کررہی ہے۔ ستمبر سے شروع ہونے والا IMF کا EFF معاہدہ اور کے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے کیے گئے معاہدوں کا تسلسل ہے۔ ان معاہدوں کے تحت پاکستانی ریاست کی خود مختاری سلب کرلی گئی ہے۔ پالیسی سازی کلیتاً آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ پاکستانی پالیسی ساز آئی ایم ایف کے زرخرید غلام بن گئے ہیں اور ہر تین ماہ میں ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال آئی ایم ایف کرتا ہے۔
ان معاہدوں کے تحت پاکستان کو سود اور سٹے کی غلاظت میں ڈبویا جارہا ہے۔ روپے کی شرح تبادلہ اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی شرح سود عالمی سود سٹے اور کرنسی کی مارکیٹوں کے رحجان پر متعین کیے جارہے ہیں۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھایا جارہا ہے۔ بیروزگاری عام ہوگئی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کی حلال معیشت کو منہدم کیا جارہا ہے۔ دستاویزی دہشت گردی کی آڑ میں ہر وہ کاروبار تباہ کیا جارہا ہے جو سود اور سٹے کے بازاروں کے باہر ہے، ٹیکس بڑھا رہے ہیں اور ٹیکس کی یہ رقم عالمی سود خوروں اور سامراجی حکومتوں کو مستقل ترسیل کی جارہی ہے۔
ہم اسلامی انقلابی ہیں ہم جس نظام زندگی کو منہدم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں وہ سرمایہ داری ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ پاکستانی نیولبرل ریاستی اشرافیہ کو پاکستانی ریاست کو سرمایہ دارانہ سامراج کی باجگزار بنانے نہ دیں یہاں سود اور سٹے کی کارفرمائی کی تحدید کریں۔ حلال کاروبار کا دفاع کریں اور عوام کو باور کرائیں کہ پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ سامراجی نظام میں تحلیل ہورہی ہے۔ وہ جو روز مرہ کی مشکلات محسوس کررہے ہیں وہ محض وقتی نہیں دائمی ہیں آئی ایم ایف کی ڈکٹیٹر شپ کو قبول کرنے کا مطلب پاکستان کی معاشرتی اور ریاستی تباہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی جماعتیں آئی ایم ایف کے خلاف ایک دیرپا محاذ کھولیں ان معاہدوں کو منسوخ کرنے کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس معاہدے کے مضمرات واضح کیے جائیں۔ ثابت کیا جائے کہ اس معاہدے پر عمل کرنا ملکی معاشی خود کشی کرنے کے برابر ہے اور متبادل ملکی معاشی حکمت عملی کی نشاندہی کی جائے۔