مسعود ملک بھی رخصت ہوئے

426

دسمبر بہت بھاری گزرتا ہے‘ جب بھی دسمبر کا سورج طلوع ہوتا ہے تو تلخ یادیں بھی تازہ ہوجاتی ہیں‘ میری والدہ محترمہ کا انتقال بھی دسمبر میں ہوا‘ سقوط ڈھاکا‘ اے پی ایس پر حملہ بھی اسی ماہ میں ہوا‘ محترم پروفیسر غفور احمد بھی اسی ماہ رخصت ہوئے یوں اس لحاظ سے دسمبر بہت بھاری لگتا ہے اب محترم دوست‘ رفیق ملک مسعود بھی رخصت ہوئے۔ دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں ہر انسان اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوئے جارہا ہے کردار کی مدت کا فیصلہ بھی اسی روز ہوجاتا ہے جس روز انسان دنیا میں آتا ہے‘ کوئی جوانی میں رخصت ہوا‘ کسی نے بڑھاپے کی منزل پائی‘ کوئی اپنے بچپن ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور کسی نے دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے چند ساعتوں کی زندگی پائی ہر انسان کی زندگی قدرت کی مٹھی میں بند ہے اور اس بند مٹھی کے راز اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا…
مسعود ملک کے لیے نیشنل پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس ہوا‘ جس میں ان کے صاحب زادے سمیت اخبار نویسوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی نواز رضا‘ صالح ظافر‘ افضل بٹ‘ محسن رضا خان‘ اسلم خان‘ ڈاکٹر عبدالودود قریشی اور دیگر نے مسعود ملک کی زندگی اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اور ذاتی تعلق کے حوالے سے گفتگو کی‘ ان تمام کی گفتگو کے اپنے اپنے نکات تھے لیکن مشترکہ بات یہی تھی ایک مسکراتا ہوا چہرہ اور ہمدرد انسان دنیا سے رخصت ہوگیا ہے مسعود ملک نے ایک اخبار نویس کی حیثیت سے نجانے کتنے سیاسی‘ سماجی اور مزدور تنظیموں کے کارکنوں کی خبر فائل کی ہوگی لیکن جس روز وہ خود خبر بنے اس روز ان لوگوں کی اکثریت مرحوم کے جنازے اور تعزیتی ریفرنس میں شریک نہیں تھی۔ تعزیتی ریفرنس میں یہی سوچتا رہا کہ مسعود ملک نے تو روزنامہ تعمیر‘ سے لے کر اے پی پی تک اس ملک کی صحافت کو بہت کچھ دیا مگر صحافت نے مسعود ملک کو کیا دیا؟ بے ثمر محنت‘ بے پناہ منافقت‘ بیزار رفیق‘ بے کیف رفاقت‘ بے مصروف ویلے دوست‘ شاید یہی وجہ تھی وہ سیاسی کارکن جو ان کی خبروں کے باعث ملکی سطح کے سیاست دان بنے‘ ان سب کی طبیعت دسمبر میں گرم بستر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئی‘ ہاں البتہ جو جنازے میں شریک ہوئے وہ سب مردم شناس تھے اور احسان فراموش نہیں تھے جو جنازے میں شریک نہیں ہوئے انہیں بھی مسعود ملک نے پہچان لیا ہے سو مستقبل میں ضرور ان کے صاحب زادے بہت جلد صحافت کا شعبہ جوائن کرکے یہ حساب برابر کریں گے۔
مسعود ملک کی صحافت کیسی تھی؟ اور جرأت کیسی تھی‘ بطور رپورٹر خبر لکھتے ہوئے ان کے الفاظ کا چنائو کیسا ہوتا تھا تعزیتی ریفرنس میں یہ سب کچھ ان کے ہم جولیوں نے بیان کیا‘ اس ریفرنس میں ضروری تھا کہ مسعود ملک کے تمام دوست مدعو کیے جاتے اور اظہار خیال کا موقع بھی انہی کو دیا جاتا تو بہتر تھا۔ نیشنل پریس کلب میں ہونے والے ان کے ریفرنس میں چند نام ایسے تھے جنہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ مسعود ملک کیا تھے‘ وہ محض تقریر برائے تقریر کرنے کے لیے تعزیتی ریفرنس میں شریک ہوئے یا شریک کیے گئے۔
تعزیتی ریفرنس میں جنرل پرویز مشرف کو بھارت کے دورے سے واپسی پر پریس کانفرنس میں کیے گئے مسعود ملک کے ایک سوال کا ہر کسی نے ذکر کیا‘ یہ سوال کیا تھا؟ یہ سوال نہیں تھا بلکہ ایک آئین پسند اور جمہوریت نواز شخص کی رائے تھی جو تیر کی طرح کاری وار ثابت ہوئی سوال یہ تھا جنرل صاحب یہ بتائیے کہ اگر کوئی جمہوری حکمران بھارت جاتا تو کیا یہ دورہ اسی طرح ناکام ہوتا جس طرح آپ ناکام لوٹے ہیں؟ اس سوال نے پرویز مشرف کے سارے کس بل نکال دیے‘ ماتھے پر پسینہ پونچھتے ہوئے صرف جواب میں یہ کہہ سکے کہ آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟ یہ مذاق مسعود ملک نے نہیں کیا تھا‘ مذاق تو اس ملک کے ساتھ حکمران ہی کر سکتے ہیں اور کرتے چلے آرہے ہیں…
ایک اخبار نویس کے طور پر مسعود ملک کیسے تھے‘ انہیں جاننے کے لیے صحافت کا شعبہ اپنانے والے ان تمام نوجوانوں کو لائبریری کا رخ کرنا چاہیے اور ان کی فائل کی ہوئی خبروں کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ایک جان دار خبر کیسے فائل کی جاتی ہے صحافت میں ایک نام عبدالکریم عابد کا بھی گزرا ہے‘ وہ صحافت کی دنیا کا بلاشبہ بہت بڑا نام تھے‘ عمدہ تجزیہ نگار‘ بے مثال ایڈیٹر‘ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی بھی نئے لکھنے والے کو ناامید نہیں کرتے تھے اس کی ہمت نہیں توڑتے تھے عبد الکریم عابد جیسے انسان نے اس ملک کی صحافت کو جلیس سلاسل اور ان جیسے بہت سے اخبار نویس دیے یہی خوبی مسعود ملک میں تھی اس ملک کو ایسے اخبار نویس چاہئیں جن کا شباب بھی بے داغ ہو اور ضرب بھی کاری… مگر ایسے اخبار نویس بہت کم رہ گئے ہیں۔ مسعود ملک کے چلے جانے سے مزید کمی ہوگئی ہے‘ اللہ ان کی مغفرت کرے‘ آمین‘ ان کی رحلت سے ملک کی صحافت اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور دونوں ایک اچھے انسان‘ بہترین اخبار نویس اور مخلص دوست‘ محب وطن پاکستانی اخبر نویس سے محروم ہوگئی ہے۔