اسلامو فوبیا کا بے قابو جن

298

ناروے میں توہین قرآن کے ایک اور واقعے نے مسلمان دنیا کو ایک طرف ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں اس واقعے نے ایک نیا ہیرو بھی عطا کیا ہے۔ یہ ایک نوجوان لڑکا ہے جو شکل وصورت سے عرب معلوم ہوتا ہے جس کا ہیرو ازم مغرب میں تیزی سے اُٹھنے والی مسلمان دشمنی کی لہر کی مزاحمت سے عبارت ہے۔ توہین قرآن کا تازہ واقعہ ناروے میں ایک سفید فام مسلمان مخالف تنظیم کی طرف سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی صورت میں ہوا۔ اس کی وڈیو کلپ دنیا بھر میں تقسیم ہو کر ذہنوں کی تشکیل نو کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس واقعے کے لیے ایک مرکزی مقام کا انتخاب کیا گیا اور دھوم دھڑکے سے یہ قبیح فعل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس منظر کو دیکھنے کے ایک ہجوم کھڑا تھا اور یوں اسے ایک میلے کی سی شکل دی گئی تھی۔ یہ رویوں اور اذہان میں پلنے والی سوچ کو ایک رواج بنانے کا سا انداز ہوتا ہے۔ چوری اور راہزنی معاشرے کا عمومی چلن اس لیے نہیں بنتا کہ لوگ اس فعل کو جرم اور قبیح سمجھ کر پس پردہ رہ کر اور اپنی شناخت چھپا کر کرنا چاہتے ہیں مگر جب کوئی غلط فعل دھوم دھام سے عوام کے درمیان رہ کر کیا جائے تو اس کی ذمے داری قبول کرنے والے اور اہتمام کرنے والے کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جہاں اسے ناپسند کرنے والے بہت سے لوگ سماج میں موجود ہیں وہیں اسے سراہنے اور چاہنے والے بھی موجود ہیں اور وہ اسی حلقے کو اپیل اور متاثر کرتا ہے۔ غلط رویوں کو معاشرہ اسی بنا پر رومنٹسائز کرنے لگتا ہے۔ ان افعال کے مرتکب افراد کو آئیڈیلائز اور پسندیدہ سمجھاتا ہے۔ یہ نفرت کی مہم کا خطرناک پہلو ہوتا ہے جب اسے سرعام جاری رکھا جائے اور معاشرے کے ایک طبقے کے لیے اسے پسندیدہ اور پرکشش بنایا جائے۔
مغرب میں تیزی سے پھیلنے والا اسلامو فوبیا اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اب یہ اسٹریٹ کرائم کی طرح بے نام اور اس کے مرتکبین نامعلوم نہیں رہے بلکہ وہ اپنی شناخت اور نظریات کو کھلے بندوں ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ ناروے سے نیوزی لینڈ تک واقعات میں یہی کچھ ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل میں اسلامو فوبیا کو ایک شعوری تحریک بنانے کی سوچ حاوی اور غالب نظر آتی ہے۔ ناروے کے واقعے میں جہاں مسلمان دنیا کے لیے ایک سفید فام باشندہ ’’ولن‘‘ کی شکل میں سامنے آیا وہیں ایک مسلمان نوجوان جس نے جان پر کھیل کر اس قبیح فعل کو روکنے کی کوشش کی ایک ’’ہیرو‘‘ کے طور پر اُبھرا۔ اسی دوران میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک میز کے گرد بیٹھی خواتین کے بیچ میں ایک اسکارف پہنے ہوئے خاتون پر سفید فام شخص کے حملے کی وڈیو بھی گردش کرنے لگی ہے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات مغرب میں آئے روز رونما ہورہے ہیں۔ برطانیہ جیسے نسبتاً اعتدال پسند معاشرے میں بھی اب اسلام دشمنی ایک لہر کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے تو باقی ملکوں کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیوزی لینڈ کا واقعہ اس کا مہم کا نقطۂ عروج تھا جس میں درجنوں نمازیوں کو بے رحمی سے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن اس واقعے میں مغرب کے اندر سے ایک مسلمان دوست اور ہمدرد کردار کے طور پر اُبھریں اور انہوں نے مسلمانوں کی ہرممکن انداز سے دلجوئی کی کوشش بھی کی مگر یہ فقط دلجوئی سے آگے کا معاملہ ہے۔ بات جس قدر آگے نکل چکی ہے اس کے لیے عالمی سطح پر ایک پالیسی اور حکمت عملی اپنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
مغرب میں گزشتہ چند دہائیوں میں منظم انداز میں اسلامو فوبیا کو فروغ دیا گیا۔ نائن الیون کے بعد اس چنگاری کو شعلہ بنا دیا گیا۔ مغربی میڈیا میں مغرب کو مسلمانوں سے یہ کہہ کر خوف زدہ کیا گیا کہ ان کی بڑے پیمانے پر مغربی ملکوں کی جانب نقل مکانی ان علاقوں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالے گی۔ یہی نہیں بلکہ مسلمان معمولی سی اکثریت حاصل کرکے ان علاقوں میں شریعت کا مطالبہ کریں گے۔ پھر ان علاقوں میں مغربی باشندوں کی حیثیت ذمیوں کی سی ہو گی اور انہیں غلامی کا ٹیکس دینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ان سے وہ اقدار اور آزادی چھن جائے گی جس کے لیے مغربی معاشروں نے صدیوں تک لڑائی لڑی ہے۔ شراب خانے بند ہوجائیں گے اور مغربی عورتوں کو اسلامی لباس پہننے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ خوفناک تصور مغرب میں انسانی ذہنوں میں راسخ کرنے کی بھرپور کوششیں ہوئیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں مصر سے نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون یہودی دانشور ایک مضمون میں مغرب کو اسی مستقبل کی تصویر دکھائی گئی تھی۔ اسی مضمون میں یورپ کو مستقبل کا ’’یوریبیا‘‘ یعنی یورپ کی عربانائزیشن کا خوف دلایا گیا تھا۔ اپنے آزاد مستقبل کی اس قدر خوفناک اور پابندیوں میں جکڑی ہوئی شبیہ ایک عام ذہنیت کے فرد کو بھی باغی اور نیم پاگل بنانے کے لیے کافی تھی۔ یہ بیج بہت محنت اور بہت منظم انداز میں نائن الیون کے بعد بوئے گئے۔
تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ نظر انداز تو کیا گیا مگر مختلف انداز اور حیلوں بہانوں سے تہذیبوں کے تصادم کا تصور ذہنوں میں جاگزیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ایک منظم ذہنیت وجود میں آگئی۔ اب یہ ذہنیت تنظیموں کی شکل میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ یہودی مخالف ہٹلر ازم اب مسلمان مخالف ہٹلر ازم کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مغربی میڈیا نے مسلمانوں کو جس طرح دہشت گردی سے بریکٹ کر رکھ دیا نیوزی لینڈ سے ناروے تک کے تمام واقعات اسی بیج کے برگ وبار ہیں۔ یہ جن اب بوتل سے نکل آیا ہے۔ طاقت کا استعمال ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ مسلمان مخالف نظریات کو جس انداز سے طاقت سے نافذ اور عام کرنے کی کوشش ہونے لگی ہے اس سے خود مغرب میں تصادم کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس رویے پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا فتنہ وفساد سے بھرجائے گی اور ایک نئی کشمکش کا آغاز ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے لیے اب منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کو اس معاملے میں آگے آکر ایسے قوانین متعارف کرانا چاہیے جن سے نفرت بھری اس مہم کا سدباب ہو سکے۔