سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت کا ملزم بری کردیا

682

سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت پانے والےملزم وجیہہ الحسن کو بری کردیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔سرکاری وکیل امجد رفیق نے بتایا کہ مدعی اسماعیل قریشی نے وفاقی شریعت کورٹ میں درخواست دی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہیے، اسماعیل قریشی کی درخواست پرفیڈرل شریعت کورٹ نے توہین رسالت کی سزا، سزائے موت کردی۔ اس پر ملزم وجیہہ الحسن نے حسن مرشد مسی کے نام سے اسماعیل قریشی کو خط بھیجے جن میں توہین رسالت کے الفاظ استعمال کئے گئے۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسماعیل قریشی نے اقبال ٹاؤن تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی، ملزم نے اپنی کمپنی کے منیجر محمد وسیم اور محمد نوید کے سامنے خط لکھنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میری اس معاملے سے جان چھڑائیں، ملزم نے دونوں گواہان کے سامنے اعتراف کیا کہ پہلے اس نے عیسائی مذہب اپنایا پھر قادیانی ہو گیا۔

مدعی کے وکیل نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کی ہینڈ رائٹنگ لی گئی، ہاتھ کی لکھائی کے ماہر نے رپورٹ دی کہ ملزم کی لکھائی خط سے میچ کرتی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم تو کہتا ہے کہ میں نے خط نہیں لکھے، میں مسلمان ہوں اورآخری نبی  کو بھی  مانتا ہوں،

ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے کہا ہے کہ غالب امکان ہے ملزم کی رائٹنگ خط سے مشابہت رکھتی  ہے۔سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت کے ملزم وجیہہ الحسن کو بری کردیا۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف توہین رسالت کا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

 ٹرائل کورٹ نے وجیہہ الحسن کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی  تھی  اور ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا تھا تاہم مجرم نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جسے منظور کرلیا گیا۔