پاکستان کا شعبہ تعلیم حکمراں طبقے کی ترجیح میںکبھی بھی شامل نہیں رہا

187

فیصل آباد(وقائع نگار خصوصی )اسلامی جمعیت طلبہ کے ڈویژنل ناظم حسن بلال ہاشمی،جنرل سیکرٹری حسیب خالدنے اپنے مشترکہ بیان میںکہا ہے کہ شعبہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اور مضبوظ بنیادوں کی علامت ہے مگر افسوس پاکستان کا شعبہ تعلیم حکمراں طبقے کی ترجیح کسی بھی دور میں شامل نہیں رہا۔اس وقت بھی شعبہ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی،سرکاری تعلیمی اداروں تعلیم کا گرتا ہوامعیار، کم بجٹ،تحقیق کی کمی،گھوسٹ تعلیمی ادارے اور دیگر کئی مسائل کا شکار شعبہ تعلیم ہمارے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برسوں سے تعلیم کا شعبہ عدم توجہ کا شکار ہے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بچوں کو سکول داخل کروانے کی شرح60فیصد جبکہ بلوچستان میں 39فیصد ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویںجماعت کے تقریبا آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیںپڑھ سکتے۔ انہوںنے کہا کہ یونیسکو کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 4فیصد شعبہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے مجموعی ملکی پیدا وار جی ڈی پی کا 4فیصد محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مجموعی طور پر 902ارب 70 کروڑروپے تعلیم کے لیے مختص کیے جو مجموعی ملکی پیدا وار کا 2.5فیصد بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دیگر ممالک کا پاکستان کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو نیپال اوسطا اپنے جی ڈی پی کا 4.7فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ مالدیپ اوسطا اپنے جی ڈی پی کا 7فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور پھر افریقہ کے سوازی لینڈ اور کینیا جیسے ملک ہیں اور وہ بھی اپنے جی ڈی پی کا 7فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ جی ڈی پی کا 5فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے ۔گھوسٹ تعلیمی اداروں کو ختم کیا جائے،سیاسی بنیادوں پر اساتذہ کی بھرتی کی حوصلہ شکنی کی جائے، تعلیمی بجٹ میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیے جائے۔