روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

254

 

 

اس مشترکہ بیان میں کھل کر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں حقیقی پارلیمانی نظام کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ملک میں برسوں سے چند سیاسی لیڈروں‘ نوکر شاہی اور ریاست کے حکمراں ٹولے کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی ہوتی رہی ہے‘ اور اس دھینگا مشتی میں قانون‘ اخلاق اور دیانت کا ذرّہ برابر بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ پارلیمانی جمہوریت کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر آئندہ انتخابات جداگانہ طرز پر کرائے جائیں۔ انتخابات براہ راست بالغ رائے دہی کے طریقے پر ہونے چاہئیں اور عوام سے ان کی رائے براہ راست لی جائے۔
اخبارات پر پابندیوں اور سنسر کی وجہ سے علماء کی ان آراء کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ صرف ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور (مدیر: ملک نصراللہ خان عزیر) نے ۱۹؍مئی۱۹۶۰ء کی اشاعت میں آئین کمیشن کا سوالنامہ اور علماء اور اہل فکر کی طرف سے اس کا جواب شائع کیا۔۲۶؍ جون ۱۹۶۰ء کو لاہور میں ’’ مقصد شہادت حسینؓ‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سیّد مودودیؒ نے وضاحت کی کہ: ’’امام عالی مقامؓ نے یہ انتہائی قدم اس لیے اٹھایا تھا کہ ملک کا دستور بدل کر اس کی روح بدل دی گئی تھی۔ مقصد بدل دیا گیا تھا اور اسے ترک کردیا گیا تھا اور امام عالی مقامؓ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اٹھے تھے۔ اگر روپے اور تلوار کے زور پر ضمیر خریدے اور طاقت اور تشدد سے زبانیں بند کی جارہی ہوں تو ایسا نظام بالآخر قوم اور ملک کا ستیا ناس کرکے رہتا ہے‘‘۔
عائلی قوانین اور علماء کا ردِعمل
ایوب خان سیاست دانوں کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ من مانے اقدامات بھی کیے جارہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو ۱۹؍ستمبر۱۹۶۰ء کو پانچ روزہ دورے پر کراچی آئے۔ دورے کے پہلے روز ہی ایوان صدر کراچی میں نہری پانی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے اور پاکستان ہمیشہ کے لیے اپنے کچھ دریائوں کے پانی سے محروم ہوگیا۔ لیکن ’’فیلڈ مارشل‘‘ ایوب خان کے حاشیہ بردار خیر ہی خیر کا گن گاتے رہے اور انھیں اس عہد کا عظیم مدبّر قرار دیتے رہے۔
۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو ایوب خان کے حکم پر عائلی قوانین کا نفاذ عمل میں آیا‘ جو صریحاً قرآن و سنّت کے احکامات اورر وح کے منافی تھے۔ اس سے پہلے جون ۱۹۵۶ء میں اس وقت کی سول حکومت کے قائم کردہ عائلی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی‘ مگر علماء کی سخت تنقید کے بعد حکومت نے اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ لیکن ایوب خان کی آمرانہ حکومت نے اپنے خود ساختہ عائلی قوانین کا حکم انتظامی طورپر نافذ کردیا۔ ۱۳؍ مارچ۱۹۶۱ء کو مولانامودودیؒ سمیت مختلف مکاتب فکر کے ۱۴ علماء نے عائلی قوانین کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا‘ جس میں اس امر پہ انتہائی اظہار افسوس کیا گیاکہ حکومت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران عائلی کمیشن کی رپورٹ پر علمائے دین کے مدلل تبصروں اور اس کی کمزوریوں کی صاف صاف نشاندہی کو مکمل نظر انداز کیا اور کمیشن کی بیش تر غلط سفارشات کو نہ صرف قانونی شکل دے دی گئی‘ بلکہ وزیر قانون نے انھیں قرآن کے عین مطابق قرار دینے کی جسارت بھی کی۔
امیر جماعت کے غیرملکی دورے پر پابندی
۱۹۶۰ء میں جب ملک میں مارشل لا کے تحت تمام بنیادی حقوق معطل اور شہری آزادیاں سلب کی جاچکی تھیں‘ مولانا مودودیؒ‘ جناب عاصم الحداد کے ہمراہ بلا داسلامی کی سیاحت کے سفر پر روانہ ہوگئے‘ تاکہ تفہیم القران کے سلسلے میں ان مقامات کا خود مشاہدہ کرسکیں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔
اس کے بعد امیرجماعت سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۸؍ اگست ۱۹۶۱ء کو مشرقی افریقہ کے سات ملکوں کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے کہ حکومت نے مولانا کو دورہ افریقہ پر جانے سے بالجبر روک دیا۔ ان کے پاسپورٹ سے افریقہ او رمشرق وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول سعودی عرب خارج کردیئے گئے۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ مشرق بعید‘ امریکہ اور یورپ کے غیر مسلم ممالک کا اندراج مولانا کے پاسپورٹ پر موجود رہا۔ حکومت کو مولانا کا صرف مسلم ملکوں میں جانا گوارا نہ تھا۔
مولانا مودودیؒ۔ ایوب خان ملاقات
صدر ایوب خان رفتہ رفتہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کواپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مولانا کو ملاقات کی دعوت دی اور لاہور کے گورنر ہائوس میں مولانا مودودیؒ سے طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مولانا کے ہمراہ جماعت کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد بھی موجود تھے۔ اس طویل ملاقات میں جنرل ایوب خان نے مولانا مودودیؒ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ:’’ سیاست بہت گندہ کام ہے۔ اس میں پڑ کر آپ اپنے آپ کو گندگی میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکتے۔ اس میں پڑ کر آپ اپنی زندگی اور وقت دونوں ضائع کررہے ہیں۔ آپ اندرون و بیرون ملک اسلام کی تبلیغ کریں خاص طورپر افریقی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کی بہت ضرورت ہے‘‘۔
(جاری ہے)