قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ

330

 

ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسْول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اْس کو ڈال دیا میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے بازپْرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تو ریجھا ہْوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ (سورۃ طہ: 94تا97)

سیدنا عبد اللہ ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں بقرہ عید کے دن کو عید قرار دوں اور اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید مقرر فرمایا ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے یہ بتائیے کہ اگر مجھے ماہ منیحہ (صاحب خیر کی جانب سے دیا گیا جانور) کے سوا اور (جانور) میسر نہ ہو تو کیا میں اسی کو قربانی کر لوں؟ آپؐ نے فرمایا نہیں! ہاں تم اپنے بال بنوالو اپنے ناخن ترشوالو، لبوں کے بال کتروالو اور زیر ناف کے بال صاف کر لو، اللہ کے نزدیک تمہاری یہی قربانی ہو جائے گی یعنی تمہیں قربانی کی مانند ثواب مل جائے گا۔ تشریح: حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قربانی تنگ دست و غریب پر واجب نہیں ہے۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ تنگدست کے لیے قربانی کرنا مستحب ہے، امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ قربانی صرف اس آدمی پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہو۔(ابوداؤد، سنن نسائی، مشکوٰۃ)