(پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم

236

انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کا یہ تیسرا کل پاکستان اجتماع ہے۔ جماعت کا گزشتہ کل پاکستان اجتماع چار سال قبل ۹ تا ۱۳ ؍نومبر ۱۹۵۱ء کو منعقد ہوا تھا۔ اس اجتماع میں جماعت نے نئے حالات کے تناظر میں اپنے دستور کو از سر نو مرتب کرنے کے لیے ایک مجلس دستور ساز مقرر کی تھی۔ جس نے اپنے دو اجلاسوں کے بعد ۴ ؍جولائی ۱۹۵۲ء کو دستور مرتب کر دیا اور فیصلے کے مطابق ۲۶؍ اگست ۱۹۵۲ء سے اس پر عمل درآمد شروع کردیا گیا۔ جماعت کے پرانے دستور کے برعکس نیا دستور ایک مکمل دستاویز ہے‘ جو ۸۵ دفعات پر مشتمل ہے۔ اسے پڑھ کر ہر شخص جماعت اسلامی‘ اس کے مقاصد اور ان کے حصول کے طریقہ کار کو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔
جماعت کے نئے دستور کے نفاذ کے بعد امیر اور مرکزی مجلس شوریٰ کا انتخاب مارچ ۱۹۵۳ء میں منعقد ہونے والے اجتماع عام کے دوران کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ لیکن قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن سے پیداشدہ ہنگاموں کی وجہ سے نہ تو یہ انتخابات ہوسکے اور نہ جماعت کا کل پاکستان اجتماع ہوسکا اور جماعت اسلامی کے امیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مرکزی مجلس شوریٰ کے بیش تر ارکان سمیت جماعت کے ۵۴ کارکنوں کو مارشل لا اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔
ان گرفتاریوں کے ساتھ ہی جماعت کے مرکزی دفاتر اور بیت المال کے پورے ریکارڈ اور سرمائے پر‘ جو اس وقت دس ہزار تین سو روپے تھا قبضہ کرلیا گیا۔ جس میں کوئی چیز قابل گرفت نہ ہونے کے باوجود جماعت کے ضبط شدہ فنڈ اور اثاثے واپس نہ کیے گئے‘ جبکہ ڈائریکٹ ایکشن کے ذمے دار لوگوں کا دفتر تک واگزار کردیا گیا۔
جماعت اسلامی کے ذمے داران کی گرفتاری کے فوراً بعد‘ شیخ سلطان احمد رکن مجلس شوریٰ کو جماعت کا عارضی امیر مقرر کردیا گیا۔ بعد میں مجلس شوریٰ کے باقی ارکان کے اجلاس منعقدہ ۱۹۵۳ء میں امیر جماعت اور مرکزی مجلس شوریٰ کے انتخابات کے لیے حکیم اقبال حسین کو ناظم انتخاب مقرر کیا گیا۔ اس انتخاب کے نتیجے میں شیخ سلطان احمد جماعت کے مستقل امیر منتخب ہوئے اور نئی شوریٰ کا انتخاب بھی عمل میں آیا۔ چودھری رحمت الٰہی بحیثیت قیمّ مجلس کے رکن اور معتمد مقرر ہوئے۔
سالانہ اجتماع عام ۱۹۵۵ کا دوسرا اجلاس
قیم میاں طفیل محمد کی طویل رپورٹ (۱۹۵۱تا ۱۹۵۵) کے بعد جس میں مشرقی پاکستان کے بارے میں بھی ایک تفصیلی رپورٹ شامل تھی، ۲۰؍نومبر کو اجتماع کا دوسرا اجلاس ۳ بجے سہ پہر شروع ہوا۔ اجلاس میں شیخ فقیر حسین ناظم مالیات نے مرکزی بیت المال کی چار سالہ مفصل رپورٹ پیش کی‘ جس میں جماعت کے مالیاتی نظام اور آمدو خرچ کی تفصیلات یکم ؍مارچ ۱۹۵۲ء سے اکتوبر ۱۹۵۵ء تک دی گئی۔ (شیخ فقیر حسین ۱۹۵۲ء سے اپنی وفات یکم جنوری ۱۹۸۳ء تک وہ مرکزی شعبہ مالیات کے ناظم رہے)۔ ان کے بعد عبدالوحید خان‘ ناظم مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان نے مکتبے کی یکم ؍اکتوبر ۱۹۵۱ء تا ۳۰؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کی رپورٹ پیش کی۔
اس رپورٹ میں مرکزی بیت المال کے جملہ آور خرچ اہم مدات کی تفصیل زکوٰۃ‘ مشرقی پاکستان فنڈ‘ مرکزی تعلیمی اسکیم‘ جماعتی اخبارات کی اعانت‘ مقدمات کے مصارف‘ سیلاب زدگان کی اعانت اور گوشوارے آمد خرچ پیش کیے گئے۔ اس رپورٹ میں مکتبے کی پالیسی یکم؍ستمبر ۱۹۴۱ء سے ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۵۵ء تک کی کارکردگی‘ مطبوعات‘ مولانا مودودیؒ کی طرف سے جماعت کے مکتبے کو کتابوں اور کتابچوں کے عطیات‘ تفصیل مع موجودات و اخبارات‘ کتابوں کی فروخت سے آمدنی کی تمام تفصیلات پیش کی گئی۔
بعد میں اسی اجلاس میں محمد عاصم الحداد‘ ناظم دارالعروبہ جماعت اسلامی پاکستان نے دارالعروبہ کی ۴سالہ رپورٹ پیش کی۔ عاصم صاحب ادارے کے بانی مولانا مسعود عالم ندویؒ کی وفات حسرتِ آیات کے بعد اس ادارے کے ناظم مقرر ہوئے‘ قبل ازیں وہ مولانا مسعود عالم ندویؒ کے نائب تھے۔ یہ ادارہ اسلامی لٹریچر اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کو عربی میں منتقل کررہا تھا۔ پورا عالم عرب‘ مولانا مسعود عالمؒ مرحوم کی کوششوں سے جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے کام سے روشناس ہوا۔
اجتماع کا تیسرا اجلاس نماز مغرب کے بعد ۶ بجے شروع ہوکر ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوا۔ جس میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ایک مربوط اور مدلل تقریر کی۔ اصلاحی صاحب کی تقریر کا خلاصہ ’’اگر اسلامی دستور نافذ نہ ہوا‘‘ کے عنوان کے تحت روداد جماعت اسلامی ہفتم میں (ص۱۹۱ تا ۲۰۵) موجود ہے۔
(جاری ہے)