پاکستان اور جماعت اسلامی (۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء) ( باب نہم)

242

جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اجلاس ۱۴ تا ۱۸؍ نومبر ۱۹۵۵ء کو ناظم آباد کراچی میں ہوا‘ جس میں ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر مختلف قراردادیں منظور کی گئیں۔ ان میں سے ایک قرارداد اسلامی دستور کے مطالبے پر مشتمل تھی۔ قیمّ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے نومبر ۱۹۵۱ء سے لے کر نومبر ۱۹۵۵ء تک کی جماعت کی کارکردگی اور ہم عصر حکومتی کارروائیوں کے بارے میں تفصیل سے رپورٹ پیش کی‘ اور بتایا کہ جماعت کن کن مراحل میں سے کس طرح گزری ہے۔ شوریٰ نے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تجویز کے مطابق مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو جماعت کا امیر مقرر کردیا تھا۔ یہ تقرر دستور کے مطابق چھ ماہ کے لیے ہوسکتا تھا‘ چنانچہ اس اجتماع ارکان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا جماعت کے مستقل امیر کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا اور انہوں نے حلف امارت بھی اٹھالیا۔
ارکان اور جماعتوں کی تعداد
یکم؍ نومبر۱۹۵۱ء کو ارکان کی تعداد ۶۶۱ تھی اور اب ۱۰۸۷ ہے۔ مقامی جماعتیں اس وقت ۸۰ تھیں اور آج ۱۴۵ ہیں۔ منفرد ارکان کی تعداد ۱۷۰تھی اور اب ۲۴۸ ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ۱۲۷ ارکان جو بوجہ جماعت سے الگ ہوئے یا کیے گئے‘ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو جماعت سے کسی اختلاف کے سبب الگ ہوا ہو۔ ان میں دس ارکان کا اس دوران انتقال ہوگیا‘ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اس وقت متفقین کی تعداد ۱۹۶۶۵ اور حلقہ ہائے متفقین کی تعداد ۱۰۰۸ ہے۔ متفق خواتین کی تعداد ۷۲۵ ہے اور خواتین کے حلقوں کی تعداد ۳۹ ہے۔
تحریک اسلامی اور مشرقی پاکستان
ہندوستان میں تحریک اسلامی کی فکری ابتدا ۱۹۳۳ء میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اجرا سے ہوگئی تھی۔ لیکن مسلم بنگال اس دعوت سے ۱۹۴۵ء تک ناآشنا رہا‘ جس کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ سارا لٹریچر اردو میں تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دعوت اسلامی کی آواز بھی مشرقی پاکستان پہنچی۔
سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں ضلع باریسال میں دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل ایک نوجوان جماعت اسلامی کے لٹریچر سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکز دارالاسلام جمال پور‘ پٹھان کوٹ سے خط کتابت شروع کی‘ اور تقسیم ہند سے پہلے وہ جماعت کے کارکن بن گئے۔ بنگال کے یہ پہلے واحد کارکن عبدالرحیم تھے‘ جو ۱۹۴۷ء تک واحد رکن جماعت بنے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد امیر جماعت اسلامی سید مودودیؒ نے مولانا محمد رفیع صاحب کو اندور (بھارت) سے براہ راست حلقہ مشرقی پاکستان کا قیمّ بناکر ڈھاکا بھیجا۔ باریسال سے مولانا عبدالرحیم کو ڈھاکا بلاکر جماعت اور تحریک کا ضروری لٹریچر اردو سے بنگلا زبان میں منتقل کرنے کا کام سپرد کیا گیا۔ کل چار ارکان پر مشتمل پہلی مقامی جماعت ڈھاکا میں بنی۔ پہلا اجتماع ۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو دفتر جماعت واقع ۲۰۵ نواب پور روڈ‘ ڈھاکا میں منعقد ہوا۔ مولانا محمد رفیع اور چند مقامی کارکن دن رات توسیع دعوت اور لٹریچر کی نشرواشاعت کا کام کرتے رہے اور علماء حضرات کو متحرک کرنے میں لگے رہے۔ لسانی مشکلات کے باوجود‘ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ء تک تین سال دعوت کا کام آہستہ آہستہ ہوتا رہا۔ اس وقت تک پورے حلقہ مشرقی پاکستان میں کل ۱۳ ارکان اور ۳۵ متفق تھے۔ اخراجات کا سارا بار مرکز جماعت اسلامی پاکستان پر تھا۔ ۱۹۵۳ء میں مرکز کے ایما پر باقاعدہ بنگلا دارالاشاعت کا قیام عمل میں آیا‘ اور اس کے لیے مرکز کی طرف سے یکمشت چھے ہزار روپے منظور ہوئے اور ترجمے کا کام جاری و ساری رہا۔
’’مطالبہ دستور اسلامی‘‘ کی مہم مشرقی پاکستان میں بھی شروع کی گئی۔ کتابچے‘ ہینڈبل اور پوسٹر کثیر تعداد میں شائع کرکے پھیلاے گئے۔ ہر مکتبہ فکر کے اسلام پسند اصحاب کی حمایت حاصل کی گئی۔ کئی جلسے ہوئے قراردادیں منظور کی گئیں۔ اخبارات‘ حکومت اور دستور ساز اسمبلی کے نام قراردادوں کی نقول‘ تار اور کارڈ ارسال کیے گئے۔ صرف ڈھاکا میں محضر ناموں پر ۲۵ سے ۳۰ ہزار افراد کے دستخط لیے گئے۔ یہ مہم عروج پر تھی تو مغربی پاکستان سے چھے ارکان شوریٰ کا ایک وفد مشرقی پاکستان آیا‘ جس نے پورے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا‘ بڑے بڑے جلسوں میں اسلامی دستور کے موضوع پر خطاب کیا۔ وفد مولانا عبدالغفار حسنؒ کی سربراہی میں نصراللہ خان عزیز‘ محمد باقر خان‘ چودھری علی احمد خاں‘ سید عبدالعزیز شرقی اور سردار علی خان پر مشتمل تھا۔ اس وفد کے دورے سے تعلیم یافتہ لوگوں میں تحریک اسلامی اور نو نکاتی مطالبہ دستور اسلامی کو سمجھنے کا خاصا شعور پیدا ہوا‘ اور ایک کثیر آبادی تحریک اسلامی سے آشنا ہوگئی۔ چاٹگام‘ سراج گنج‘ سید پور‘ کھلنا اور بوگرہ کے بعض دیہات میں حلقہ ہائے متفقین منظم ہوئے۔ ڈھاکا میں حلقہ خواتین قائم ہوگیا۔ بنگلا تراجم میں چار مزید کتابچوں کا اضافہ ہوا‘ جن کی تعداد اب بڑھ کر ۹ ہوگئی۔
(جاری ہے)