کھلاڑی عوام سے ہیں ‘ کارکردگی پر تضحیک نہ کی جائے‘ جماعت اسلای

221

لاہور( نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کھیلوں کے فروغ و کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں درج ذیل قرار داد منظورکی جس میں کہا گیاہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2019 ء میں قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی قوم کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی۔اب قومی کرکٹ ٹیم میں قیادت اور
کھلاڑیوں کی پوزیشن تبدیل کرنے کی خبریں آرہی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ پی سی بی جذباتی فیصلہ نہ کرے، کھلاڑیوں کی کارکردگی کے علاوہ دیگر عوامل کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے اور موجودہ ٹیم میں اگر کوئی تبدیلی انتہائی ناگزیر ہو تو کی جائے۔ کھیلوں کے لیے قومی آمدنی کا معقول حصہ مختص کیا جائے ۔کھیل کو کھیل سمجھا جائے ۔ میڈیا غیر ضروری ہائپ دے کر عوام کے جذبات کا استعمال نہ کرے ۔ کھلاڑی بھی عوام سے ہیں ، ان کے کھیل کی بنیاد پر ان کی تضحیک نہ کی جائے ۔ نوجوان نسل کو کرائمز اور نشہ سے بچانے کے لیے بھی کھیل ضروری ہے ۔قرار داد میں کہا گیاہے کہ ملک میں عموما ’’کرکٹ‘‘ کے کھیل کو فروغ دیا جاتا اور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں ، جودیگر کھیلوں خاص طور پرقومی کھیل’’ ہاکی‘‘ کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے ۔ قومی کھیل ہاکی کا زوال اقرباپروری ، سیاست اور غیر اخلاقی رویے کی بدولت ہواہے وگرنہ ہاکی میں پاکستان تین مرتبہ ورلڈ چمپئن ، تین مرتبہ اولمپکس گولڈمیڈلسٹ ، تین مرتبہ چمپئن ٹرافی کا فاتح رہا اور قومی ہاکی ٹیم لاتعدادقومی و بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابی حاصل کر کے پاکستان کا جھنڈا سربلند کرچکی ہے۔ اسی طرح سکوائش میں پاکستان دو دہائیوں تک عالمی چمپئن رہا لیکن آج اسکوائش میں پاکستان کا کوئی مقام نہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ باکسنگ ، ریسلنگ میں کھلاڑیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کے لیے کامیابیاں حاصل کیں ۔ کبڈی میں پاکستان عالمی کبڈی کپ میں ہمیشہ Runner up رہاہے، تھوڑی سی حکومتی سرپرستی سے پاکستان کبڈی کا ورلڈ چمپئن بن سکتاہے ۔ اسی طرح دیگر کھیلوں کی فیڈریشنز تو موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے کھیلوں کے حکومتی اداروں اور کھیلوں کی فیڈریشنز کی باہمی چپقلش اور معاملات کو عدالتوں میں گھسیٹنے کے عمل سے کھیلوں کی تنزلی اور کھلاڑیوں کے بد دل ہو کر کھیل چھوڑ جانے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیںکہ 22 کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں اولمپکس مقابلوں میں محض دو درجن کے قریب کھلاڑی کوآلیفائیڈ کرتے ہیں جبکہ یورپ کے کئی ایسے ممالک ہیں جن کی آبادی پاکستان سے کئی گنا کم ہے لیکن اولمپک مقابلوں میں ان کے کھلاڑیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وزارت کھیل اورکھیلوں کی تمام فیڈریشنز کے باہمی اختلافات ختم کرائے اور کھیلوں کی ترقی کے لیے انہیں ایک پیج پرلایا جائے۔جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کا یہ اجلاس ملک کے چاروں صوبوں میں ہر کھیل کی اکیڈمی اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے قومی پروگرام شروع کرنے کا مطالبہ کرتاہے۔ کھلاڑیوں کی سرپرستی کے لیے انہیں سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازمتیں دی جائیں اور کھیلوں کا ایسا میکنزم ترتیب دیا جائے جہاں سے کھلاڑی منتخب کیے جائیں اور ان کی ٹریننگ کر کے انہیں اولمپکس ،ایشئن اور سیف گیمز میں شامل کرایا جائے تاکہ یہ کھلاڑی عالمی مقابلوں میں کامیابی حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کریں ۔