کیا ملازمت پر بحالی کا تصور ختم ہوگیا

1463

محمد عرفان
شیخ
لیبر قوانین کی تاریخ بہت طویل ہے اور یہ موضوع بھی ایسا ہے کہ کوئی ماہر قانون دان، سینئر ٹریڈ یونین رہنما یا پھر معاملات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی دانشور ہی اس پر طبع آٓزمائی کرسکتا ہے۔ راقم الحروف اپنے آپ کو ہرگز اس قابل نہیں سمجھتا اور ناہی یہ مضمون لکھ کر اپنی کوئی ماہرانہ رائے دے رہا ہے البتہ لیبر قوانین کا طالب علم اور ایک ٹریڈ یونین کارکن ہونے کی حیثیت سے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ایک سوال کا جواب گزشتہ کئی سالوں سے تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں لیبر قوانین کے حوالے سے سال 1969ء کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ جب اس ملک میں صنعتی تعلقات کے قوانین میں سے یہ واحد قانون ہے جو 1969سے 2002 تک (34سال) کے طویل عرصہ تک نافذ العمل رہا اور تمام اداروں کے ملازمین اسی قانون کی مشہور زمانہ دفعہ 25-A کے تحت اپنی ملازمت چھن جانے پر یا دوسرے لفظوں میں اپنے معاشی قتل پر لیبر عدالتوں سے رجوع بھی کرتے رہے اور پھر برطرفی غیر قانونی ثابت ہونے پر بمعہ بقایا جات یا بعض اوقات بغیر بقایا جات کے ملازمت پر بحال ہوتے رہے۔ یہ ایسے مقدمات ہیں جو لیبر عدالتوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں اور ان بے شمار فیصلوں میں اعلیٰ عدالتوں اور عدالت اعظمیٰ پاکستان نے ملازمین کی بحالی بمعہ بقایا جات کو درست قرار دیا اور جہاں کسی ملازم کا ملازمت پر بحالی کا مقدمہ خارج کیا گیا ایسی صورت میں اعلیٰ عدالتوں نے اور بعض اوقات عدالت اعظمیٰ پاکستان نے ملازمت پر بحالی کا حکم جاری کیا۔ ملازمین کو بمعہ بقایا جات ملازمت پر بحال کرنے کی بنیادی وجہ دفعہ 25-A کی ذیلی
دفعہ (5) تھی جس کا مفہوم کچھ اِس طرح ہے۔ ذیلی دفعہ (4) کے تحت لیبر عدالت شکایت کی ثالثی اور تعین کرنے وقت معاملے کے تمام حقائق پر غور کرے گی اور معاملے کے حالات و واقعات کے پیش نظر منصفانہ اور مناسب احکامات صادر کرے گی۔‘‘اس ذیلی دفعہ کے تحت کسی بھی ملازم کی برطرفی کو غیر قانونی ہونے کی صورت میں کالعدم قرار دے کر ایسے ملازم کو ملازمت پر بحال کیا جاتا تھا اور دورن سماعت مقدمہ ایسے ملازم کے بیروزگرا ہونے کی صورت میں اس عرصے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات منظور کی جاتی تھیں جنہیں عرفِ عام میں بقایا جات یا (Back benefits) کہا جاتا ہے۔ ملازمت پر بحالی بمعہ بقایا جات یا بعض مخصوص حالات میں بحالی بغیر بقایا جات کے لیکن اس صورتحال میں بھونچال اُس وقت آیا جب 2002 میں ایک آمرانہ حکم کے تحت IRO-1969 کو ختم کرکے IRO-2002 کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس میں دیگر تبدیلیوں کے علاوہ مخصوص حالات و واقعات کے پیش نظر لیبر عدالتوں کو ایک اضافی اختیار دیا گیا کہ اگر لیبر عدالت کسی ملازم کو کسی وجہ سے ملازمت پر بحالی نہ کرے تو وہ بحالی کے بدلے ایسے ملازم کو معاوضہ کی ادائیگی کا حکم جاری کرے یہ اختیار IRO-2002 کی دفعہ 46 کی ذیلی دفعہ (5) کے تحت دیا گیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ’’اگر لیبر عدالت کسی ورکر کی برطرفی کو غیر قانونی سمجھے تو ایسے ورکر کے لیے کم از کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 30 تنخواہیں بطور معاوضہ ادا کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے‘‘۔
IRO-2002 میں بحالی کے بدلے معاوضے کی ادائیگی کا حکم دینے کے اضافی اختیار کے باوجود (5) 25-A والی ذیلی دفعہ IRO-2002 کی دفعہ 46 کی ذیلی دفعہ (4) کی صورت میں نہ صرف موجود رہی بلکہ مذکورہ بالا ذیلی دفعہ IRO-2002 کی دفعہ 46 کی ذیلی دفعہ (4)، IRA-2008 کی دفعہ 41 کی ذیلی دفعہ (5)، IRA-2010 کی دفعہ 41 کی ذیلی دفعہ (5) اور SIRA-2013 کی دفعہ 34 کی ذیلی دفعہ (7) کی صورت میں 1969 سے آج تک موجود ہے اور جس کو کبھی بھی قانون سازوں نے نہ تو ختم کیا نہ ہی کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قانون سازی کرنے والے اس ذیلی دفعہ اور اس کے الفاظ کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں اور اسی ذیلی دفعہ کی اہمیت کے پیش نظر لیبر عدالتوں سے لے کر عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے بے شمار مقدمات میں برطرف ملازمین کو بمعہ بقایا جات یا بعض اوقات بغیر واجبات کے ملازمت میں بحال کیا۔ ایک مشہور زمانہ مقدمہ بشیر بنام پی سی ہوٹل ’’SCMR-1992‘‘ میں عدالت عظمیٰ
پاکستان نے مذکورہ بالا ذیلی دفعہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جب برطرفی غیر قانونی ثابت ہوجائے اور یہ بھی واضح ہو کہ ملازم کو اس سے بہتر ملازمت نہیں ملی تو پھر مناسب اور منصفانہ (Just & Proper) فیصلہ یہی ہے کہ غیر قانونی برطرفی کو بحالی میں تبدیل کیا جائے اور بیروزگاری کے بدلے بقایا جات کی ادائیگی عمل میں لائی جائے۔ عدالت عظمیٰ پاکستان کے وضع کردہ اس اصول / قانون کی روشنی میں ہمارے ہاں لیبر عدالتیں تو اب بھی ملازمین کو ملازمت پر بحال کررہی ہیں لیکن بحالی کی صورت میں آجر یا مقدمہ خارج ہونے کی صورت میں ملازم جب اپنا اپیل کا حق استعمال کرتے ہوئے سندھ لیبر اپیلٹ ٹریبونل سے رجوع کرتا ہے تو وہاں برطرفی غلط ثابت ہونے کی صورت میں بھی ایسے ملازم کے لیے مناسب معاوضے کی ادائیگی کا حکم تو جاری کیا جاتا ہے لیکن بحالی کا حکم جاری نہیں کیا جاتا۔ راقم الحروف کی ناقص معلومات کے مطابق موجودہ جج صاحب نے اپنی اب تک کی مدت کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ فریقین کو سننے کے بعد کیا جن میں سے محض چند ایک کو ملازمت پر بحال کیا گیا اور ملازمت پر بحالی بمعہ تمام تر واجبات تو صرف ایک ملازم کے حصے میں آئی (سجاد علی بنام کانیشیرو پرائیویٹ لمیٹڈ حکم مورخہ 12 جون 2018) دو ملازمین کی بحالی بمعہ 50 فیصد بقایا جات، محمد رفیق بنام یوسف سلک مل بحالی بغیر واجبات شامل ہیں۔ ممکن ہے ان کے علاوہ بھی کچھ ہوں جو کہ میرے علم میں نہیں ہیں۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں میرے جیسے ایک ٹریڈ یونین کارکن کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے کہ کیا ملازمت پر بحال کا تصور ختم ہوگیا ہے؟