مودی سرکار کی منافقت، بے شرمی یا دیدہ دلیری؟

758

ہندو انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی، مسلمانوں کا قتل عام اور بھارتی حکومت کی خاموشی
ڈاکٹر عابد الرحمٰن

بھارتی حکومت نے امریکی ادارے برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ بھارت کو اپنے سیکولر ہونے، سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے، ایک مشترکہ معاشرہ ہونے اور رواداری کے ماحول سے اپنی طویل وابستگی پر فخر ہے، بھارتی آئین اپنے تمام شہریوں بشمول اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔‘‘ امریکی ادارے کی رپورٹ بھارت میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف برسوں سے جاری تشدد کے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انتہا پسند ہندوؤں کے سرعام تشدد کی وارداتیں 2018ء میں پورے سال ہوتی رہیں، جن میں گؤ کشی کی افواہوں کو بنیاد بنا کر مسلم اقلیت کے خلاف قتل عام برپا رکھا، اس دوران میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں، جن میں الزام عائد کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار بھی ان کارروائیوں میں ملوث نکلے کیونکہ وہ قصور واروں کو بچانے میں پیش پیش رہے۔ حالیہ امریکی رپورٹ میں مذہب کی بنیاد پر قتل، حملوں، فسادات، عدم مساوات کے واقعات، غارت گری اور اقلیتوں کو اپنے مذہبی عقائد سے روکنے والے اقدامات کی رپورٹس کا بھی ذکر ہے۔
شرم کا مقام یہ ہے کہ جس روز بھارتی حکومت نے تازہ امریکی رپورٹ کو مسترد کیا۔ اسی دن جھاڑکھنڈ سے تبریز انصاری نامی نوجوان پر ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سرعام تشدد کی خبر آئی اور اس میں وہ سب باتیں شامل رہیں، جن کا امریکی رپورٹ میں ذکر ہے۔ نوجوان کو چوری کے الزام میں پکڑا گیا، بجلی کے کھمبے سے باندھ کر مارا پیٹا گیا، بے بس مسلمان لڑکے کو ہندو مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا اور اُس پر ظلم یہ کہ پولیس نے بھی مظلوم ہی کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا اور اُس سے چوری کے متعلق اقبالیہ بیان ریکارڈ کرلیا اہم اس پر ہونے والے تشدد کو ریکارڈ نہیں کیا۔ ہاتھ پیر باندھ کر سرعام 24 گھنٹوں تک غیر انسانی سلوک کی بات اس وقت سامنے آئی جب 2 روز بعد مظلوم تبریز انصاری زخموں کی تاب نہ لاکر جان کی بازی ہار گیا جبکہ مجرموں نے تو پہلے ہی انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ پوری واردات کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تبریز نے واقعی چوری کی تھی تو بھی ایسا کون سا قانون اجازت دیتا ہے کہ لوگ اپنے طور پر اُسے سزا دیں، ماریں پیٹیں اور پھر پولیس کے حوالے کریں؟۔ کیا پولیس کو اس بات کا علم نہیں تھا؟۔ اگر نہیں تو پورے تھانے کو معطل کردینا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس وقت تبریز انصاری کو گرفتار کیا گیا تھا، اُسی وقت اس پر تشدد کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ پولیس نے صرف مسلمان نوجوان کے خلاف کارروائی کی، جسے تعصب کی کھلی مثال اور جانبداری و لاپروائی کا عملی مظاہرہ کہا جا سکتا ہے جبکہ حملہ آوروں کو بھی پورا یقین ہے کہ پولیس ان کی حمایت کرے گی، یہی وجہ ہے کہ ہندو انتہا پسند گروہ کھلے عام غنڈہ گردی کرتے پھرتے ہیں اور جس سے چاہیں، جب چاہیں سرعام تشدد کے ذریعے زندگی کا حق چھین لیتے ہیں۔ انہیں قانون، سیکورٹی اداروں اور حکومت سمیت کسی کا کوئی خوف نہیں۔ تبریز انصاری کا معاملہ مقامی اور عالمی میڈیا پر آنے کے بعد 2 پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے، لیکن قوی امکان یہی ہے کہ کچھ روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہونے پر انہیں بحال بھی کردیا جائے گا۔
خبرہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تبریز انصاری کی موت سر پر گہری چوٹ کے باعث ہوئی، تو کیا گرفتاری کے بعد اُس کا طبی معاینہ کرنے والے ڈاکٹر کو سر پر زخم دکھائی نہیں دیا تھا؟۔ اس کی نازک حالت کا اندازہ نہیں ہوا تھا؟ یا پھر وہ بھی متعصب تھا کہ اس نے مسلمان ہونے کی وجہ سے طبی معاینے اور رپورٹ بنانے میں لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ بھارت میں جاری حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کہ یہ معاملہ اگر مظلوم تبریز انصاری کے بجائے کسی ہندو نوجوان کا ہوتا تو اب تک ڈاکٹر کی کھلے عام درگت بنا دی گئی ہوتی۔
کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی نہیں، بلکہ چوری کا معاملہ ہے۔ مشتعل افراد نے ایک چور کو مارا اور اتفاق یا بد قسمتی سے اس کی موت واقع ہو گئی اور بس۔
حیرت ہے کہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ لوگ خود عدالت ہو گئے ہیں؟۔ کیا کوئی بھی قانون کسی کو اس طرح سزا دینے کا اختیار دیتاہے ؟ اور اگر یہ سب اتفاق یا محض بدقسمتی کا واقعہ ہے تو پھر تبریز انصاری سے جے شری رام اور جے ہنومان جیسے ہندو مذہبی نعرے کیوں لگوائے گئے؟ کیوں ایک مسلمان کو غیر مذہب کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا؟ اس چوری میں اگر مسلمان کے بجائے کوئی ہندو پکڑا جاتا تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جاتا ؟ ہمیں تو یقین ہے کہ اس وقت عوام کیا، پولیس کی کارروائی بھی بالکل مختلف ہوتی۔ تبریز انصاری کے معاملے میں چوری محض ایک بہانہ ہے، ورنہ نہ جس طرح گؤ کشی کے جھوٹے الزام اور محض شک کی بنیاد پر مشتعل ہجوم کے تشدد کی وارداتیں عام ہو چکی ہیں، اب ہندو مذہبی نعرے لگوانے کے لیے اسی طرح کا کے واقعات دانستہ کیے یا کرائے جا رہے ہیں۔ ایسے واقعات تو پہلے بھی بغیر کسی سبب کے ہو چکے ہیں۔ آسام میں یہی ہوا، نئی دہلی میں یہی ہوا، کولکتہ میں تو ایک استاد کو نعرے لگانے سے انکار کرنے کی پاداش میں چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا۔ صاف ظاہر ہے ایسے واقعات کسی مشتعل ہجوم کا غیر ارادی ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش ہے۔ ہجوم میں موجود حملہ آور تو محض مہرے ہوتے ہیں، اس کھیل کی چال کہیں اور سے چلی جارہی ہے، تعصب اور نفرت کی فضا کو کنٹرو ل کوئی اور کر رہا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر کے ان کی حوصلہ شکنی کرنا اور اپنے حقوق سے دستبردار ہوتے ہوئے دَب کر زندگی گزارنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے۔ ساتھ ہی اس بہانے ہندوؤں میں مسلم مخالف مذہبی جذبات بھڑ کا کر انہیں سیاسی طور پرمتحد ووٹ بینک بنائے رکھنا اور عوامی طور پر درپیش مسائل سے غافل رکھنا ہے۔ یہ بھارت میں جاری سیاست کا انتہائی گھناؤنا رُخ ہے۔ بر سر اقتدار پارٹی بی جے پی اِسے روکنے کی ذمے داری ادا کر نے کے بجائے اُلٹا اِسے بڑھاوا دے رہی ہے۔ ایک بات اہم ہے کہ ایسے بیشتر واقعات بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہو رہے ہیں اور بی جے پی رہنما خود ان معاملات میں ظالموں کی حمایت میں سامنے آ رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم مودی بھی اول تو ایسے معاملات پر پراسرار خاموشی اختیار کتے ہیں اور اگر بولتے بھی ہیں تو تب، جب پانی سر سے گزر چکا ہو یا معاملہ تقریباً ٹھنڈا ہو چکا ہو ساتھ ہی اِس میں بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکالتے ہیں، مثلاً حالیہ واقعے میں جہاں انہوں نے مذمت کی اور مقتول تبریز انصاری کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا، وہیں اس معاملے میں جھاڑکھنڈ پر انگلی اٹھانے والوں پر بھی تنقید کی کہ جھاڑکھنڈ ریاست کی تذلیل کرنے کا حق ہم میں سے کسی کو نہیں۔ یعنی آپ کو مظلوم سے ہمدردی بھی ہے لیکن اس کی حفاظت کی اولین ذمے دار کی ناکامی پر بھی کوئی بات آپ کو گوارا نہیں۔ اس طرح کے معاملات کیوں بڑھ رہے ہیں اس کا ایک نظارہ لوک سبھا میں بھی ہوا کہ خاص طور پر حزب مخالف کے ارکان کی حلف برداری کے دوران بی جے پی ارکان نے وہاں اسی قسم کے نعرے لگائے جس طرح کے نعرے پچھلے کچھ دنوں سے ہونے والے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کی وارداتوں میں مظلوموں سے لگوائے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مرکزی وزیر نے لوک سبھا میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وندے ماترم نہ کہنے والوں کو ملک میں رہنے کا حق ہے؟ اور بر سر اقتدار یعنی بی جے پی ارکان کی جانب سے اس کا جواب تھا کہ ’’نہیں‘‘۔
بھارت میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مسلمان سب سے زیادہ ہندو انتہا پسندوں کے سرعام تشدد سے پریشان ہیں۔ مسلم خواتین ایسے واقعات سے ہراساں اور بیوہ ہو رہی ہیں مگر ہماری حکومت ہے کہ اس پر قانون بنانے کے بجائے غیر اہم معاملات پر ایوان میں بحث کررہی ہے تاکہ حالات کا رُخ اور عوام کی توجہ تبدیل کی جا سکے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ کھلا تعصب نہیں تو اور کیا ہے۔ پارلیمان سے لے کر شہروں، گاؤں دیہاتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خودامریکا کی مذکورہ رپورٹ کاثبوت ہے لیکن مودی سرکار نے اسے نام نہاد سیکولرازم کا حوالہ دے کر مسترد کردیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ اسے منافقت کہا جائے، بے شرمی یا دیدہ دلیری؟