کیوں پرائے مکان میں آئی؟

913

پھر اقبال بھائی کی کوئی خیر خبر نہیں آئی۔ نہ جانے اب کہاں ہوں گے؟ جب کراچی چُھٹا توبہت سے لوگ چُھٹ گئے۔ ان بہت سے لوگوں میں اقبال بھائی بھی ہیں۔ اب کراچی چُھٹے ہوئے بھی تو پورے اُنتیس برس ہونے کو آتے ہیں۔ اقبال بھائی اس سے پہلے ہی چُھٹ گئے تھے۔ خیر، جدا ہونے کا قصہ آخرمیں۔ ابھی تو یہ پوچھیے کہ وہ ملے کیسے تھے؟
بھٹو صاحب کا دور لوگ بھول گئے ہیں۔مگر ہم نہیں بھولے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ ہم تو اقبال بھائی کو بھی نہیں بھولے۔ لوگ بھول گئے ہیں کہ بھٹو صاحب کے دور میں کیسا بیزار کُن سیاسی اور صحافتی حبس تھا۔ ’’جسارت‘‘، “The Sun” ، ’’اردو ڈائجسٹ‘‘، “Punjab Punch” اور ’’زندگی‘‘ سمیت کتنے ہی اخبارات و جرائد حق گوئی اور بے باکی کی پاداش میں بند کر دیے گئے تھے اور ان کے مدیران، ناشران اور مالکان پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیے گئے تھے۔ حبس بالائے حبس یہ کہ کسی کو (بشمول حکمراں پیپلز پارٹی) کہیں بھی کوئی ’’عوامی جلسہ‘‘ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس ’’عوامی جمہوری دور‘‘ میں جلسے ہوتے ہی نہ ہوں۔ صاحب! جلسے ہوتے تھے، مگر صرف وزیر اعظم کے۔
’’جسارت‘‘ کی بندش کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ڈاؤ میڈیکل کالج کی چہار دیواری کے اندر ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا۔ یہ جلسہ طالب علم برادری کا صحافی برادری سے اظہارِ یکجہتی تھا۔ کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین تھی اور پولیس طلبہ سے ڈرتی تھی۔ پھر اس احتجاجی جلسے کی صدارت بھی کر رہے تھے تو کراچی سے منتخب ہونے والے جرأت مند رُکن قومی اسمبلی پروفیسرغفور احمد، جن سے پوچھا گیا کہ : ’’جسارت کب نکلے گا؟‘‘ تو جواب ملا: ’’بھٹو اور جسارت ساتھ نکلیں گے‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ ہم جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ جمعیت و جسارت دونوں سے تعلق تھا، جمعیت سے قلبی اور جسارت سے قلمی۔ مگر جسارت پرسرکاری ستم ٹوٹنے کے بعد قلب و قلم ایک ہو گئے تھے۔ لہٰذا جلسے میں ہم نے اپنی ایک نظم بھی پیش کی:
’’یہ حبس کیسا ہے جسم و جاں پر؟… یہ بندشیں آہ پر، فغاں پر! … جو ان فکروں پہ قید طاری … یہ ظلم سے تپتا سرخ سیایہ… تڑپ، کسک، گریہ، آہ و زاری!‘‘
وغیرہ وغیرہ۔ نظم سنا کر اُترے تو طارق بھائی نظر آگئے۔ طارق بھائی جمعیت کے سابق رُکن تھے اور این ای ڈی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر اب پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن میں مینٹی نینس انجینئر ہو گئے تھے، جو اُن دنوں ’’پا سمک‘‘ (PASMIC) کہلاتی تھی۔ ہمارا اور طارق بھائی کا… یوں سمجھیے کہ … دانت کاٹی روٹی کا ساتھ تھا … ہم پیالہ بھی تھے، ہم نوالہ بھی تھے، ہم مشرب بھی تھے اور ہم ذوق بھی۔ ہم دونوں ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ طارق بھائی جمعیت سے فارغ ہو چکے تھے… ’دل مگر دل تھا، اُسی محفل میں لے آیا انہیں‘ … دورانِ تقریر میں پروفیسر غفور نے ’’جسارت‘‘ کی جرأت و بے باکی کا ذکر کیا تو ہم نے طارق بھائی کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا:
پرندِ پر شکستہ کو قفس میں کون رکھتا ہے؟
اسیری جب بھی آئی ہے بفیضِ بال و پر آئی
ابھی شعر پورا ہی کیا تھا کہ پچھلی صف سے ٹھیٹھ دیہاتی پنجابی لہجے میں ایک کڑک دار آواز آئی: ’’واہ … واہ… کیا برجستہ شعر پڑھا ہے‘‘۔
ہم دونوں نے بیک وقت مڑ کر پیچھے دیکھا تو واقعی ایک ٹھیٹھ دیہاتی پنجابی بیٹھا ہوا تھا۔ انتہائی کالا بھجنگ۔ انتہائی بھدا حلیہ۔ سرپر دیہات کے لوگوں کی طرح لنگی کا صافہ بندھا ہوا۔ بے ریش چہرہ،چھوٹی آنکھیں، بڑے بڑے ہونٹ۔ اُن کودیکھ کر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور شبہہ ہوا کہ کہیں خفیہ پولیس کا آدمی تو نہیں؟مگر جلسے کے اختتام پر وہ دیہاتی پھر ملا اور فرمائش کی:’’وہ شعر مجھے بھی لکھ کر دے دیں‘‘۔
طارق بھائی نے احتیاطاً پوچھا : ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
جواب ملا: ’’پا سمک میں مزدوری کرتا ہوں‘‘۔
لوجی! طارق بھائی سے تو اُن کا ڈاک خانہ مل گیا۔خیر انہیں شعر لکھ کر دے دیا گیا۔ پھر اُن کا ذوق آزمانے کو فرمائش کی گئی:
’’آپ بھی تو صاحبِ ذوق معلوم ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی پسند کا کوئی شعر سنائیے!‘‘
وہ تو گویا شاعروں کی طرح اسی فرمائش کے منتظر تھے۔ جھٹ تین اشعار سنا دیے:
پاس ہے، گرچہ دُور رہتا ہے
دل میں کوئی ضرور رہتا ہے
ایسے رہتے ہیں وہ مرے دل میں
جیسے ظلمت میں نور رہتا ہے
جب سے دیکھا ہے اُن کی آنکھوں کو
ہلکا ہلکا سرور رہتا ہے
آخری دو اشعار پر طارق بھائی پھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے: ’’حاطب بھائی ! چلیے کسی چَے کدے میں بیٹھتے ہیں‘‘۔
انہیں لے کر بندر روڈ پر ڈاؤ میڈیکل کالج کے سامنے ہی واقع ایک چائے خانے میں جا براجمان ہوئے۔معلوم ہوا کہ ان کا نام محمد اقبال ہے۔مگر تعجب اس بات پر تھا کہ ’پا سمک‘ کے ایک مزدور کو شعر و سخن سے اور خاص کر جمعیت کے جلسے سے کیا دلچسپی؟سو، اُن سے پوچھاگیا:’’آپ کا تعلق جمعیت سے رہا ہے؟‘‘
کہنے لگے: ’’یہی تو افسوس ہے!…‘‘ہم دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ تاکنے لگے۔ اگر تعلق رہا ہے تو شاید کوئی افسوسناک قسم کا تعلق رہا ہوگا۔مگر جب اُن کی طرف دیکھا تووہ کہہ رہے تھے: ’’… کہ جمعیت سے تعلق نہیں رہا، مگر اب حادثاتی طور پر جماعت سے تعلق قائم ہو گیا ہے‘‘۔
ہم نے احتیاطاً پوچھ لیا: ’’ جائز ہی ہے نا؟‘‘ ہنس پڑے۔ اورپہلی بار اُس سیاہ بھجنگ چہرے پر چمکتے ہوئے سفید موتیوں نے نور کی کرنیں بکھیر دیں۔
خوب ہنس چکے تو فرمایا: ’’یہ بڑی دلچسپ داستان ہے، آپ سنیں گے تو آپ بھی ہنسیں گے‘‘۔
عرض کیا: ’’ضرور سنائیے … بہت دن ہمیں مُسکرائے ہوئے ہیں‘‘۔ پھر ہنس پڑے۔ان کی داستان طویل تھی۔ کالم کی جگہ مختصر ہے۔ سو القصہ مختصر کہ پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہوئے، پلے اور بڑھے۔سڑک اور بجلی وغیرہ کی جدید نعمتوں سے محروم اس گاؤں کی واحد مسجد میں جو مولوی تھا، اُس کا معمول تھا کہ ہر جمعے کے خطاب میں اپنا سارا زورِ خطابت ’’فتنۂ مودودیت‘‘ سے بچنے کی تلقین پر صرف کرتا تھا اور ایسے نت نئے دلائل لے کر آتا ، جن کو سننے کے بعد مودودی کے کافر ہونے میں شک کی جرأت بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ شک کرنے والابھی کافر ہو جاتا۔ پھر اس شکی کے کفر میں شک کرنا بھی اپنے آپ کو مشکوک بنانے کے مترادف تھا۔اس ماحول میں اقبال بھائی نے میٹرک پاس کر لیا۔ ٹھیٹھ ان پڑھ ماحول میں میڑک کر لینا گاؤں کے نوجوان کی معراج تھی۔گھر والوں نے جانا کہ اب وہ ملازمت کے قابل ہو گئے ہیں۔ چناں چہ انہیں ان کے چچازاد بھائی کے پاس کراچی بھیج دیا گیا۔ مشترکہ خاندانی نظام کی خوبی سمجھیے یا خامی، کہ (بقولِ رئیسانی) بڑا بھائی، بڑا بھائی ہوتا ہے، سگا ہو یا چچا زاد۔ اقبال بھائی اپنے بڑے بھائی کے ہاں کراچی آن پہنچے۔ وہ ایک کشادہ فلیٹ میں تنہا رہتے تھے۔ کسی اچھی جگہ ملازم تھے۔ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ اقبال بھائی کو پہلے کہیں نوکری دلائی جائے، پھر اعلیٰ تعلیم۔ سو گھر سے باہر جاتے ہوئے جہاں وہ فریج کے اندر رکھی ہوئی چیزوں کا تعارف کرواتے جاتے، وہیں اپنی کتابوں کی الماری کی طرف اشارہ کرکے یہ بھی فرماتے جاتے کہ فارغ وقت میں بیٹھ کر کتابیں پڑھا کرو۔ ایک روز وہ کتابوں کی الماری کی طرف بڑھے تو اُن کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی اور سر پر آسمان ٹوٹ پڑا: ’’بھائی تو کافر ہوگیا‘‘۔ ساری الماری اُسی مودودی کی کتابوں سے بھری پڑی تھی، جو نہ صرف خود کافر تھا، بلکہ اُسے کافر نہ ماننے والا بھی کافر ہو جاتا تھا۔ اقبال بھائی کو اپنے ایمان کی سلامتی سخت خطرے میں نظر آئی۔مگر کیا کرتے؟ بڑے بھائی کو، اور اس واحد ٹھکانے کو چھوڑ کر کہاں جاتے؟ خاندان میں اور کون پڑھا لکھا تھا، جس کو خط لکھ کر بتاتے کہ ’’بھائی مودودیا ہوگیا ہے، بھائی کافر ہوگیا ہے‘‘۔ بہر حال جی میں سوچا کہ جب تک کوئی نوکری نہ مل جائے تب تک اپنے ایمان کی سخت حفاظت کی جائے اور اللہ سے ہر وقت ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگی جائیں۔ مگر کب تک؟ ایک روز نفس نے بہکایا کہ : ’’آخر دیکھنا تو چاہیے کہ یہ کافر کہتا کیا ہے؟‘‘باورچی خانے سے جھاڑن اُٹھایا، اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹا اور الماری میں سے ایک پتلی اور مختصر سی کتاب نکالی۔ لرزتے ہاتھوں میں کپکپی اور کانپتے ہونٹوں پر ایمان کی سلامتی کی دعائیں تھیں۔ خیر، کانپتے کپکپاتے، جھاڑن میں ملفوف ہاتھ سے اُٹھا کر کتاب دیکھی تو عنوان تھا:’’سلامتی کا راستہ‘‘۔
اقبال بھائی نے بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے تو وہی تمام گالیاں جو مسجد کا مُلا مولانا مودودیؒ کو دیا کرتا تھا، اُس کے نام لوٹائیں۔ پھر بھائی کے ساتھ باقاعدہ جماعت کے اجتماعات میں جانے لگے۔ اللہ نے کیا کہ پا سمک میں ہیلپر کی نوکری بھی مل گئی۔
ہم نے یہ سارا قصہ سن کر اقبال بھائی کے چہرے کی طرف دیکھا تواُس کالے بھجنگ چہرے پر ایک کشش سی نظر آئی۔ اپنے پرانے خیالات و نظریات کو ترک کر دینا اور حق ظاہر ہو جانے پر فی الفور قبول کر لینا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ طرزِ کہن پہ اڑنا انسانی فطرت ہے۔ اقبال بھائی کی زبانی اُن کی پوری کہانی سننے کے بعد ہم نے اُس معصومیت کو پہلی بار نوٹ کیا، جو اُن کے بھدے چہرے کی اوٹ میں چھپی ہوئی تھی۔ ہم دونوں دنگ تھے کہ:
ایسی آزاد روح اِس تن میں؟
کیوں پرائے مکان میں آئی؟
بعد میں ان سے بہت سی ملاقاتیں رہیں۔ زیادہ تر بڑے پروگراموں میں ہوئیں۔ طارق بھائی سے تو شاید اسٹیل مل میں بھی مل لیتے تھے۔ مگر ہم ملیر کھوکھراپار میں رہتے تھے اور وہ ماری پور میں۔ اُس زمانے میں خط لکھنے کا رواج تھا، سو اقبال بھائی مکمل ملاقاتوں میں پیدا ہو جانے والے وقفوں کو خطوط سے پُرکرتے اور نصف ملاقات کر لیتے۔ ایک روز اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو اقبال بھائی کھڑے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ ماری پور جانے ہی جانے میں وہاں سے دو گھنٹے لگتے تھے۔ گویا ملاقات کا وقت کم تھا۔خیر تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد ہم نے اپنی ڈائری نکالی اور انہیں لے کر ماڈل کالونی طارق بھائی کے گھر جا پہنچے۔ انہوں نے بھی ڈائری نکالی اور ہم حسب عادت ایک ’’چَے کدے‘‘ میں جا بیٹھے۔ ہم دونوں مسلح تھے اور اقبال بھائی نہتے۔ ہم نے انہیں گولڈن سامع جان کر باری باری غزلوں پر غزلیں سنانی شروع کردیں۔ یہ سلسلہ کوئی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اقبال بھائی پہلے تو پُرجوش انداز میں ’’سخن سخن پر داد‘‘ دیتے رہے پھر اُن کی بیٹری ڈاؤن ہونا شروع ہوگئی۔بالآخر انہوں نے اچانک ایک زور دار نعرہ مارا ’’اُف فوہ!‘‘ اور تقریباً چیختے ہوئے بولے: ’’میرا تو سر پھٹا جا رہا ہے‘‘۔ طارق بھائی نے بوکھلا کر اپنی ڈائری چائے کی میز سے اُٹھا کر نیچے گو د میں رکھ لی۔ یہی اضطراری حرکت ہم سے بھی سر زد ہوئی۔پھر طارق بھائی نے شرمندگی سے کہا: ’’آج اقبال بھائی کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی‘‘۔ اقبال بھائی نے رومال نکال کر اپنے چہرے سے اپنا پسینہ پونچھا، پھر ہمارا عرقِ ندامت پونچھتے ہوئے بولے: ’’نہیں، نہیں ! آج آپ دونوں نے اتنے اچھے اور معیاری اشعار سنائے ہیں کہ میرا تو سر پھٹا جا رہا ہے‘‘۔
بس یہ اقبال بھائی سے ہماری آخری ملاقات تھی۔پھر اقبال بھائی کی کوئی خیر خبر نہیں آئی۔