محمدمرسی کی شہادت: ذاتی تاثرات

576

سید جاوید انور

مصر کے منتخب صدر اور اخوان المسلمون مصرکے رہنما پروفیسر انجینئر ڈاکٹر حافظ القرآن محمد محمد مرسی عیسی العیاط شہید کر دیے گئے۔
اس شہادت کی خبر مجھے اس وقت ملی ہے جب دل پہلے سے بہت زخمی ہے اور جذبات کا موسم چل رہا ہے جو اس بارطول پکڑ چکا ہے۔زندگی کے کئی موڑ اور کئی ماہ و سال کے بعد ایک موسم ایسا آتا ہے جس کو ہم جذبات کا موسم کہتے ہیں۔اس موسم میں غموں کی تپش بہت بڑھ جاتی ہے۔یہ غم غلطیوں کا، گناہوں کا، منزل کی طرف سفر میں سست روی کا، حالات کے جبر کا اور اپنی بے بسی کا ہوتا ہے۔ان غموں کی تپش سے جسم کے اتھاہ سمندر سے بھاپ اٹھنا شروع ہوتی ہے جو بادل بن کر دل پر جمع ہوتی ہے۔یہ بادل کبھی پھوار، کبھی رم جھم برکھا اور کبھی موسلا دھار بارش کی شکل میں آنکھوں سے نمودار ہوتا ہے۔ اس جذبات کے موسم کا آنا بھی ضروری ہے کہ اس سے دل دھل کر صاف اور شفا ف ہو جاتا ہے۔
اردو کے کالم میں دل کا زور بہت لگتا ہے اس لیے بہت دنوں سے اردو میں خامہ فرسائی کی ہمت نہیں ہوئی۔گزشتہ دو کالم تعزیتی کالم ہی تھے اور اب موت پرلکھی تیسری تحریر ہے۔ یعنی تعزیتی ہیٹ ٹرک ہے۔
محمد مرسی کی شہادت پر مجھے کوئی غم نہیں بلکہ رشک ہے۔ ہر وہ شخص جس کا مطلوب ہی شہادت ہو اس شہادت پر رشک کرے گا۔ہاں البتہ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ شیطان وقت مصر کے فرعون پر کنکریاں نہیں پھینکی گئیں۔اب ہر سال کئی ملین حاجی مکہ جاتے ہیں اورشیطان کی طرف اربوں اور کھربوں کنکریاں پھینکتے ہیں۔اللہ اور رسول اللہؐ نے حج کی عبادت میں نہی عنی المنکر کی جو مشق کرائی تھی وہ اب ایک نری رسم، بے مقصد اور بے روح مشغلہ بن کر رہ گئی ہے۔ برائیاں سلطنت پر سلطنت قبضہ کرتی چلی گئیں اور اچھا ئیوں نے اپنے کو سمیٹ کر مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں میں مقید کر لیا۔ اللہ اور رسول اللہؐ کی سب سے بڑی سنت ’’امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر‘‘ سے روگردانی پر ذلت، مسکنت، غلامی، بیچارگی پھیلتی جا رہی ہے، ممالک اسلامیہ سر نگوں، ان کے شہر سقوط اور ان کے باسیوں کی لاشوں سے گھر، شہر، کھیت، کھلیان دریا، اور پہاڑ اٹے جاتے ہیں۔اور اب بھی منبر و محراب سے مردہ اجسام ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ والی تقریریں، اور بزرگوں کے لا یعنی قصے اور بے معنی محاورے سنائے جا رہے ہیں۔ ظالم کے ہاتھ روکنے والا تو دور کی بات ہے ظلم کو ظلم کہنے والابھی کوئی نہیں۔ مسلم امت کا حال یہ ہے کہ ان کو رونا بھی نہیں آرہا۔ امریکی فوجی مسلم ممالک میں جا جا کر مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کرتے ہیں اور انہیں میں سے کچھ تائب ہوکر خوب روتے ہیں اور رونے کا حق بھی وہی ادا کرتے ہیں۔جب انسان ہر قسم کے مفادات اور تعصبات (شخصی، قومی، نسلی، لسانی، علاقائی، مسلکی، و مذہبی)سے بالا تر ہو جاتا ہے تو دل کی ہر دھڑکن کہہ دیتی ہے کہ کیا کرنا کیامت کرنا۔
کسی نے پاکستان کے بڑے بڑے عالم دین، محبوب اور عاشق رسول کے ایک ایک دعویداروں اور بڑے بڑے نام لے لے کر بتایا ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے پھوٹے منہ بھی محمد مرسی کی شہادت پر ایک لفظ نہیں کہا۔ میں کسی کا نام نہیں لے رہا کہ ہمارے اکثر قارئین ان میں سے کسی نہ کسی کے تقدس کا جامہ اوڑھے ہوئے اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوں گے۔ تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ خاموشی دراصل نشانی ہے اس بات کی کہ گردنوں کی فصل کٹنے کے لیے تیار ہے۔1857 تو محدود تھا برصغیر تک۔ اکیسویں صدی میں یہ عالمی فصل ہے۔حق گوئی اور امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر سے کوتاہی کا خدائی تازیانہ سخت ہے۔
حضورؐ نے فرمایا:
’’اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تمہیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑو ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا یا تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح ان لوگوں پر کی تھی(اشارہ ہے یہودیوں کی طرف)‘‘۔
آنحضرتؐ کا یہ ارشاد بہت مشہور ہے۔
’’تم میں سے کوئی شخص کوئی برائی دیکھے تو اس کو چاہئے کہ اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے اور روکنے کی خواہش رکھے، یہ ایمان کا ضعیف ترین حصہ ہے‘‘۔
حضورؐ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہاتھ، زبان اور دل سے کن لوگوں کے خلاف جہاد کرنا ہے۔
دوسروں کے حق مارنا، باطل کی حمایت کرنا،حق و صداقت کو دبانا،کمزوروں اور ضعیفوں کو ستانا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور یہ ایسے ہی دوسرے تمام خلافِ انسانیت، خلافِ عقل اور خلافِ فطرت اعمال منکر ہیں اور ان سے خود احتراز کرنا اور دوسروں کو باز رکھنا عنی المنکر ہے۔
عرب کی بہار (Arab Spring) سے میں ذرا بھی متاثر نہ تھا۔مجھے پہلے دن سے احساس تھا کہ یہ عرب کا خزاں ہے، اس میں سارے پتے جھڑ جائیں گے اور اب کے برس بہار کا موسم نہ آئے گا۔ جس نے بھی امپریلیزم اور امپریل طاقتوں (سامراج) کا معمولی مطالعہ بھی کیا ہے وہ یہ جان لے گاکہ
وعدہ خلافیوں کو ترس جائے گا یقین
راتوں کو انتظار کا موسم نہ آئے گا
صدام حسین کے درخت کو گرانے کے بعد کئی درخت اورتھے جن کا گرانا عظیم اسرائیل (Greater Israel) کے قیام اور اسرائیل کی ایک دنیا (One World)کے لیے اب ضروری ہو گیا تھا، کیونکہ وہاں اب تحریکات اسلامی کے لیے راہ ہموار ہو چکی تھا اور اسرائیل و امریکا کو اس سے پہلے حالات کو ایک اور رخ پر موڑنا تھا۔ مسلم عرب اور مسلم افریقہ؛ تیونس، لیبیا، مصر،یمن، شام، بحرین، مراکش، الجزائر، لبنان، اردن، کویت، عمان اور سوڈان میں مستقل مظاہروں سے ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔مغربی تعلیم یافتہ نوجوان جو مغرب کی ’’آزادی‘‘ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے جال میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے،ان کو متحرک کر دیا گیا تھا۔ مصر میں سیکولر اور لبرل نوجوانوں نے ا س تحریک کا آغاز کیا۔ چوں کہ حسنی مبارک کی آمریت سے لوگ عاجز اور بیزار تھے اس لیے یہ تحریک تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی۔اخوان المسلمون شروع میں عرب بہار کی تحریک میں نہیں آئی تھی لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ یہ تحریک غلط
ہاتھوں میں چلی جائے گی تو وہ بھی اس میں شامل ہو گئی۔ اخوان المسلمون مصر کی واحد منظم تنظیم تھی اس لیے وہ قاہرہ کے تحریر اسکوائر کے مظاہروں پر مکمل کنٹرول سنبھال چکی تھی۔ اسرائیل اور امریکا کا منشا یہ تھا کہ مصر کے اپنے بڈھے دوست حسنی مبارک کو ہٹا کر ایک جوان سیکولر اور لبرل جمہوریت قائم کی جائے۔ مقصد مسلم دنیا میں انتشار، انارکی، طوائف الملوکی کو پیدا کرنا، اورابھرتی ہوئی اسلامی احیائی تحریکوں کو دبانا تھا۔ مصر کے عام انتخاب میں اخوان المسلمون کی کامیابی نے ان کے پروگرام کو ناکام بنا دیا تو اسرائیلی منصوبہ، امریکی حکمت عملی اور سعودی عربیہ کے سرمایہ کو بروئے کار لاکر اس حکومت کو السیسی (وزیر دفاع) کی سربراہی میں فوج کے ذریعہ ہٹا دیا گیا۔ اور اس طرح اخوان المسلمون کی طاقت کو ایک بار پھر کچل دیا گیا۔ اس سے قبل 1966 میں فوج کے جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون کو اسی طرح کچلا تھا۔ بقول نعیم صدیقی مرحوم ’’حضور کی سپاہ کی ایک اور صف الٹ گئی۔‘‘