اگر مگر کا کھیل!

636

سابق چیف جسٹس آف پاکستان محترم ارشاد خان کا ارشاد گرامی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کا یہ تجزیہ درست ہے کہ اگر پولیس کا محکمہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر عوام الناس کی عام شکایات کا ازالہ کردیا کرے تو عدلیہ کو مقدمات کے بوجھ سے کافی حد تک نجات مل جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے چودھری اپنی کوتاہی کا اعتراف کیوں نہیں کرتے، اپنے دائرہ اختیار میں دوسرے اداروں کے سربراہان کو ’’گھس بیٹھنے‘‘ کی ترغیب کیوں دے رہے ہیں؟ اگر، مگر کا یہ کھیل کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا، مسائل کے حل کے لیے ذمے داری کا احساس ضروری ہے۔ احساس بیدار ہوجائے تو کوئی ذمے داری ایسی نہیں جو نبھائی نہ جاسکے۔ خدا جانے! ہمارے بڑوں کو یہ احساس کب ہوگا کہ ہر خرابی کی جڑ ذمے داری سے فرار ہے۔ ہم ایک مدت سے عدلیہ کے بڑوں سے یہ گزارش کررہے ہیں کہ سمن جاری کرنے سے قبل یہ تحقیق بہت ضروری ہے کہ مدعی کے الزامات درست ہیں یا نہیں مگر ہماری ہر صدا نقار خانے کی صدا بن گئی۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ کی ایک حالیہ ہدایت کے مطابق ججز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سمن جاری کرنے سے پہلے یہ تحقیق کریں کہ الزامات درست ہیں یا نہیں کیوں کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے شخص پر مقدمہ دائر کرکے ذہنی اذیت دے جب عدالت کسی شخص کا سمن جاری کرتی ہے تو وہ ذہنی صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ محض اس لیے سمن وصول کرنے سے انکار کردیتے ہیں کہ انہوں نے جرم ہی نہیں کیا ہے پھر عدالت کیوں جائیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عدالت ان کی گرفتاری کا سمن جاری کردیتی ہے۔
سمن وصول کرنا مدعا علیہ کی مجبوری ہوتی ہے جو مدعی کے لیے باعث طمانیت ہوتی ہے۔ ہمارا آئین بھی ججز کو اس بات کا پابند کرتا ہوگا کہ سمن جاری کرنے سے قبل الزامات کی تحقیق کرے تا کہ مدعا علیہ کے بنیادی حقوق مجروح نہ ہوں۔ عدالت کے ذریعے ذہنی اذیت دینا اور رسوا کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ جرم سے بچنا جج کا بنیادی فریضہ ہے مگر جہاں دینی فرائض کی کوئی اہمیت نہ ہو وہاں بنیادی فریضے پر کون عمل کرتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسے عمل سے گریز کیوں کیا جائے جس کی سزا نہ ہو۔ عدلیہ کی خرابی کی اصل اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ ججز کے غلط فیصلوں پر ایکشن نہیں لیا جاتا، سرزنش نہیں کی جاتی۔ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ اگر عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اس کا تجزیہ کریں تو تمام ججز اور جسٹس صاحبان کو یقینا یہ ہدایت جاری فرمائیں گے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر سماعت کریں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ دائرہ اختیار سے بااختیار نکلتا ہے اور ’’کٹی پتنگ‘‘ بے اختیار بن جاتا ہے اگر سمن جاری کرنے سے قبل الزامات کی تحقیق کرلی جائے تو عدلیہ کو مقدمات کے بوجھ سے کافی حد تک نہیں مکمل طور پر نجات مل سکتی ہے۔ جعلی مقدمات اور پھر اپیل در اپیل کا ابلیسی چکر ہی انصاف میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دوسری وجہ ججز کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے، جب تک ججز کے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگتے رہیں گے۔
جانشینی کے ایک مقدمے میں گواہ حاضر ہوا تو جج صاحب نے کہا شہادت کی ضرورت نہیں، طلبانہ جمع نہ کرانے کی بنیاد پر مقدمہ خارج کررہا ہوں۔ مقدمے کے اخراج کی اطلاع ملنے پر وکیل صاحب عدالت پہنچے تو جج صاحب جاچکے تھے۔ وکیل نے ریڈر سے کہا کہ آج ہڑتال ہے جج صاحب کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکے۔ سوائے پیشی دینے کے۔ علاوہ ازیں طلبانہ جمع ہے اسی لیے شہادت کی تاریخ دی گئی تھی۔ ریڈر نے فائل نکالی تو حیران رہ گیا کہ طلبانہ جمع کرانے کا اندراج اور شہادت کا آرڈر موجود تھا۔ مذکورہ مقدمہ دو ماہ تک بحالی کے معاملے میں اٹکا رہا۔ اسی طرح کے سیکڑوں مقدمات جج صاحبان کی غفلت اور عدم توجہ کے باعث عدل کے ہتھوڑے سے کچل دیے جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا نظام عدل نااہل افراد کو تعینات کرنے کی وجہ سے ہتھوڑا گروپ بن چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہے اور وکلا حضرات ضرورت سے زیادہ بے باک ہیں۔