حزب اختلاف کے تعاون سے بجٹ منظور

550

قومی اسمبلی میں زبردست نورا کشتی کے بعد حکومت نے آئندہ سال کا بجٹ باآسانی منظور کروا لیا ۔ اس سے قبل حزب اختلاف نے زوردار بھبکیاں دی تھیں کہ بجٹ کو اسمبلی سے کسی بھی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ بھبکیاں اتنی زوردار تھیں کہ حزب اقتدار کے ارکان اسمبلی بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ بجٹ کی ایوان سے منظوری ایک مشکل کام ہوگا تاہم آخری دنوں میں کھیل سامنے آگیا تھا کہ معاملات طے پاچکے ہیں اور جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ محض عوام کے سامنے اپنا چہرہ صاف رکھنے کے لیے ہے ۔ بجٹ کو منظور نہ ہونے دینا تو بہت دور کی بات ہے ، حزب اختلاف اس میں ایک نکتہ بھی ادھر سے ادھر نہیں کرسکی ۔ پس پردہ جو بھی ڈیل ہوئی ہو اور اس کے فوائد حزب اختلاف کو جس عنوان بھی ملیں ، اس کا خمیازہ عوام ہی بھگتیں گے ۔ ٹیکس لگانا اور ٹیکس وصول کرنا ، اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ حکومت اگر ٹیکس نہیں وصول کرے گی تو اپنے وظائف کس طرح سے پورے کرسکے گی ۔ تنقیدی نکتہ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہے اور اس کا بجٹ سے چند فیصد تو تعلق ہوسکتا ہے مگر سو فیصد نہیں ۔ عمران خان نے پاکستانی عوام کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہی یہ کیا کہ برسراقتدار آتے ہی مرکزی بینک کو پاکستانی کرنسی کی بے قدری کی اجازت دے دی ۔ پاکستانی روپے کی بے قدری کی رفتار اسد عمر کے دور میں ذرا سست تھی مگر آئی ایم ایف کے حاضر سروس افسر کو بینک دولت پاکستان کا گورنر لگانے سے تو اس میں پر لگ گئے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رضا باقر کو آئی ایم ایف نے ہدف دیا ہے کہ چند ماہ کے اندر ہی روپے کی شرح تبادلہ کوایک ڈالر کے مقابلے میں دو سور وپے پر لے آیا جائے ۔ روپے کی یہ بے قدری ملک کی معیشت کے لیے سونامی ثابت ہوئی اور پاکستان کی اقتصادی حالت کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے ۔ اس بارے میں ہم پہلے بھی نشاندہی کرچکے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی درآمدات کی مالیت برآمدات سے تقریبا دگنی ہے ۔ ایسے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی سو فیصد بے قدری کا مطلب ہر شے کی مالیت میں دو سو فیصد تک اضافہ ہے ۔ ڈالرمہنگا ہونے سے ملک میں فرنیس آئل اور پٹرول بھی مہنگا ہوا جس سے بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پاکستان نے نجی بجلی گھروں سے ڈالر میں بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے ۔روپے کی بے قدری کے نتیجے میں بجلی مہنگی ہورہی ہے جس کی وجہ سے صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافہ لازمی امر ہے ۔ حکومت نے قدرتی گیس کے نرخوں میں ازخود 190 فیصد اضافہ کردیا ہے ۔ تو اب سرکار بتائے کہ کس طرح سے ملک کی معیشت ترقی کرسکتی ہے ۔ پاکستان ایک قرضدار ملک بھی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں سو فیصد بے قدری کا نتیجہ قرض میں بھی سو فیصد اضافے کی صورت میں نکلے گا ۔ حکومت اس کی اقساط کس طرح سے ادا کرپائے گی ۔ حکومت کو سپورٹ مہیا کرنے والے ہر ایک کی شخص زبان پر محض ایک ہی دلیل ہے کہ حکومت وقت نے مشکل فیصلے کیے ہیں جن کے نتائج آنے والے وقت میں اچھے نکلیں گے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کون سا ملک کے مفاد میں فیصلہ تھا جس پر صاد کیا جائے اور عمران خان کو داد دی جائے ۔ حزب اختلاف بھی اصل مسائل کو چھوڑ کر غیر متعلقہ مسائل میں الجھی ہوئی ہے ۔ اس سے حکومت کو ایک طرح کا واک اوور مل گیا ہے کہ جو چاہے کرو اور جیسے چاہے کرو ، سامنے کوئی ہلکی سی مزاحمت بھی نہیں ہے ۔ حزب اختلاف کو صرف ایک ہی فکر ہے کہ کسی طرح اس کے سربراہ اور ان کے خاندان کو امان مل جائے اور وہ ملک سے باہر جاکر اپنی لوٹی ہوئی رقم سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ عمران خان تو جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں اس امر کا شعور ہی نہیں ہے کہ وہ ملک کو کس خوفناک گرداب میں پھنسا چکے ہیں ۔ اصل حیرت تو عمران خان کو لانے والی قوتوں پر ہے کہ وہ کس طرح سے ملک کو دشمنوں کی گرفت میں دینے کے بعد بھی چین کی بانسری بجارہی ہیں ۔ جدید دور میں کسی بھی ملک کو غلام بنانا ہو تو اس کا آسان ترین طریقہ اسے معاشی طور پر کھوکھلا کردینا ہے ۔ اس کی مثالیں ہمارے سامنے عرب دنیا کی ہیں کہ کس طرح سے معاشی طور پر خوشحال اور آزاد ممالک کو معاشی طور پر کھوکھلا کرکے اپنی گرفت میں لے لیا گیا ہے ۔ پاکستان کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا پانا چاہیے ۔ حزب اختلاف سے تو کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ تاہم ہم ملک میں سلامتی کے اداروں سے ضرور امید رکھتے ہیں کہ اس ضمن میں وہ کوئی صحت مند کردار ادا کریں گے اور ملک کی معیشت کی بہتری کی طر ف توجہ دیں گے ۔ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم کردیا جائے اور دوبارہ سے کم ازکم ایک سو روپے فی ڈالر پر لے آیا جائے تو پاکستان کی معیشت کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ دوسری صورت میں پاکستا ن میں اور افریقا کے افراتفری کے شمار ممالک میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔ اس وقت صورتحال ابھی نہیں یا پھر کبھی نہیں کی سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ اگر فوری طور پر اس ضمن میں مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا تو پھر حالات مزید خراب ہی ہوں گے ۔ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے عمران خان نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے اور شاید اس پر بھی کوئی کمیٹی بن جائے۔