چیلنجز سے نمٹنے کیلیے ملی یکجہتی کی اہمیت اُجاگر کرنا ہوگی، فردوس اعوان

837

اسلام آباد (خصو صی رپورٹ) وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وطن عزیز کودرپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلیے قومی اتحاد اور ملی یکجہتی کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی امور، قانو ن و انصاف اور اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزارتوں کو اس بارے میں جامع اور قابل عمل روڈ میپ دے کر معاشرے میں بڑھتے ہوئے اختلافات کو مثبت انداز میں سلجھانے کیلیے دوستانہ ماحول کو پروان چڑھانا چاہیے تاکہ معاشرے میں نفرتوں اور تعصبات کا تدارک کرکے اتحاد و یگانگت اور قربتوں کو فروغ دیا جاسکے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور پیغام پاکستا ن پروگرام کے زیراہتمام انفارمیشن سروس اکیڈمی میں منعقد ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین المذہب ہم آہنگی اور امن پسندی کو تقویت دینے کیلیے مکالمہ اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہے، معاشرتی تضادات اور اختلافات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کا واحد اور بہترین راستہ بھی مکالمہ ہی ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی قوموں کو چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنے تمام تر گروہی اختلافات اور تضادات کو بھلاتے ہوئے متحد ہو کر درپیش مسائل پر قابو پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اسلام ہی ہماری اصل نظریاتی اساس ہے، اسلامی تعلیمات میں نفرت اور انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام امن و سلامتی کا مبلغ دین حق ہے، پاکستان میں امن عامہ کو تباہ کرنے والے جنونی انتہا پسند بھی اسلامی لبادہ اُوڑھ کر اسلام دشمن شیطانی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بعض جنونی انتہا پسند گروہ اسلام کے نام پر پورے معاشرے کو یرغمال بناکر اپنے باطل نظریات دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، در حقیقت ان گروہوں کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور ان کے باطل نظریات بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اس لیے ریاست کو مفادعامہ کے تحت ان گروہوں کی جنونی انتہا پسندی کو روکنے کیلیے مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ایسا بہترین اور قابل عمل چارٹر دیا ہے جس کو اقوام متحدہ نے بھی اپنایا ہے اس لیے علما اور اسکالرز کو اسلام کے امن پسند فلسفے کا پرچار کرنا چاہیے کیونکہ اسلام کا معاشرتی فلسفہ ہی قانون کی حکمرانی، بین المذاہب ہم آہنگی اور معاشرے میں تحفظ و برداشت کا ماحول پروان چڑھانے کیلیے بہترین راستہ بھی ہے۔ اس موقع پر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی ڈا کٹر فرخندہ ضیا، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی ہما چغتائی، چیئرمین پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس جمیل شا ہ، دعوۃ اکیڈمی کی ڈین رفعت ہاشمی اور علامہ اقبال یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا القیوم نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں پیغام پاکستان بیانیہ کی ترویج کے سلسلے میں دوسری تقر یب گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالا میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کے تعا ون سے ہوئی جس میں نامور اسکالرز، فیکلٹی ممبرز اور سول سوسائٹی کے سرگرم افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ضیا الحق، یونیورسٹی آف گجرات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ارشد، سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سعیدالرحمان، یونیورسٹی آف پنجاب کے ڈین ڈاکٹر حماد لکھوی اور گفٹ یونیورسٹی ری ایکٹر ڈاکٹر فہیم الاسلام نے اپنے خطابات میں کہا کہ معاشرے میں اشتعال انگیز تقاریر کے رجحانات اور انتہا پسندانہ مائنڈسیٹ سے معتدل اور ترقی پسندانہ نکتہ نظر کے سا تھ نمٹنے کی ضرورت ہے جس کیلیے علما، مشائخ اور مذہبی رہنما معاشرے کے تمام طبقات کو مکالمے اور بات چیت پر آمادہ کرنے کیلیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت کے استحکام اور قومی مفادات کے تحفظ کیلیے ضروری ہے کہ بین الااقوامی محاذ پر بھی انتہا پسندانہ نظریات کو شکست سے دوچار کیا جائے۔ مقررین نے حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ اسلامی اصولوں اور ملکی آئین کے مطابق شہری حقوق کا تحفظ کرے اور معاشر ے میں بگاڑ اور فساد برپا کرنے والے شرپسند جنونی عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔