جی ایس پی پلس اور حکومتی ترجیحات

368

یکم جنوری 2014ء کو یورپین یونین کے 28 ممالک نے ایک متفقہ فیصلہ کے تحت پاکستان کو 10 سال کے لیے جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (Plus GSP) کا حقدار قرار دیا تھا جس کا مطلب تھا کہ اس دس سالہ عرصہ میں پاکستان کی طرف سے یورپی ممالک کو ایکسپورٹ کی جانے والی 6000 سے زائد اشیاء جن میں ٹیکسٹائل اور ملبوسات سر فہرست ہیں ڈیوٹی فری ہونگی۔ اور پاکستان کو اپنی ایکسپورٹ میں جو تجارتی مقابلے کا سامنا ہے اس مقابلہ میں پاکستان کو بہت سی آسانیاں پیدا ہو جاہیں گیں۔ پاکستان کو دی جانے والی اس رعایت کے ساتھ پورپین یونین نے یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے جن 27 کنوینشنز کی توثیق کی ہوئی ہے ان میں سے 8 کور لیبر اسٹینڈرڈز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا اور یورپین کمیشن ان کنونشنز پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر ہر دو سال بعد اس بات کا فیصلہ دے گا کہ کیا اس سہولت کو مزید جاری رکھنا ہے یا اس سہولت کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان ورکرز کنفیڈریشن نے ایک جائزہ رپورٹ تیار کی تھی اور کنفیڈریشن کے رہنما چودھری محمد یعقوب اور راقم نے اس رپورٹ کو تحریر کیا تھا جس میں پاکستان میں لیبر قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا جائزہ لیاگیا تھا کہ پاکستان میں ILO کے 8 کور کنویشنز پر عمل درآمد کی کیا صورت حال ہے۔ ان 8 کور کنونشنز میں ٹریڈ یونین بنانے کا حق، حق ہڑتال، سوداکاری کا حق، حکومتی اعلان کے مطابق کم سے کم تنخواہ کی پوری ادائیگی، خواتین اور مرد ورکرز کی تنخواہوں کا یکساں ہونا، لیبر انسپکشن اور محنت کشوں کے صحت و سلامتی کے معاملات کے سوشل سیکورٹی اور بڑھاپے کی پنشن کے اداروں میں ورکرز کی رجسٹریشن کے معاملات شامل ہیں۔ ورکرز کنفیڈریشن کی اس جائزہ رپورٹ کی کاپیاں حکومت پاکستان کو بھی دی گئیں اور وہ رپورٹ جرمنی اور برسلز میں یورپین یونین اور یورپین کمیشن کے ساتھ بھی زیر بحث آئیں اور رپورٹس یورپین پارلیمنٹ میں بھی پیش کی گئیں اور یورپی کمیشن کے اکابرین نے ان ہی رپورٹس کو بنیاد بنا کر حکومت پاکستان کے سامنے بھی پاکستان میں لیبر قوانین پر علم درآمد کی مایوس کن صورت حال پر کئی مرتبہ اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔اور راقم سمیت کنفیڈریشن کے دیگر رہنماؤں سے بھی بارہا ملاقاتیں کیں۔ کنفیڈریشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور ILO کی اسٹینڈنگ کمیٹی براے ایشاء پیسفیک کے نمائندے ظہور اعوان اور مجھے دو مرتبہ اس رپورٹ کو پیش کرنے کی غرض سے یورپین کمیشن کی دعوت پر برلن اور برسیلز بھی جانے کا اتفاق ہوا اور یہ رپورٹس ظہور اعوان نے یوپین پارلیمنٹ میں بھی پیش کی اور ان رپورٹس کے مندرجات پر پورپین کمیشن اور جرمنی کی حکومتوں کے وزرا سے لے کر ان کی وزارت کامرس، وزارت خارجہ اور ممبران پارلیمنٹ تک سے تفصیلی بات چیت کا موقع ملتا رہا اور ہم نے اپنی رپورٹس میں اس پہلو کو خاص طور پر مد نظر رکھا تھا کہ پورپین یونین نے پاکستان کو دس سال کے لیے پورپین یونین کے ممالک کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی جو سہولت دی ہے وہ سہولت دس سال تک برقرار رہنی چاہیے۔یورپین کمیشن ہر دو سال بعد یورپین پارلیمنٹ پر پاکستان میں لیبر معیارات پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر مزید دو سال کے لیے پاکستان کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے۔ پچھلے 5 سال سے پاکستان کے صنعت کار اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں ڈالرز کا کاروبار کر رہے ہیں۔ یورپین یونین کے پاکستان میں لیبر قوانین اور ILO کے 8 کور کنونشنز پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ہمیشہ ہی یہ تحفظات رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اس سلسلہ میں اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر رہی۔ ہم بھی پاکستان کے چیمبرز آف کامرس اور ایمپلائزفیڈریشن آف پاکستان کے رہنماؤں کو یورپین یونین کے ان تحفظات سے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ یورپین یونین پاکستان میں مزدورں کو ان کی قانونی مراعات نہ دینے سے مطمئن نہیں ہے اور اس حقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پورپین یونین کو ڈیوٹی فری مال بھیجنے والے تقریباً تمام اداروں میں یونینز نہیں ہیں اور کہیں یونینز ہیں بھی تو پاکٹ یونینز ہیں جن کی افادیت کو یورپین یونین ماننے کو تیار نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ کارخانوں میں لیبر انسپکشن کا زیر بحث آتا رہا اتفاق سے اس سلسلہ میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی صورت حال غیر تسلی بخش ہے اور محکمہ محنت اس شعبہ میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ کسی بھی انڈسٹریل سٹیٹ میں کوئی لیبر انسپکٹر مالکان کی مرضی کے بغیر انسپیکشن نہیں کر سکتا اور نہ ہی محکمہ محنت کے پاس مطلوبہ تعداد میں لیبر انسپکٹرز موجود ہیں کہ وہ اس کام کو سر انجام دے سکیں۔ یہ تمام عوامل یورپین یونین کے سامنے پاکستان کی لیبر معیارات پر عمل درآمد کی صورت کی انتہاء منفی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اب اس بات کا خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلا رہا ہے کہ اس سال یورپین پارلیمنٹ پاکستان سے یہ سہولت ہی واپس نہ لے لے پنجاب حکومت کی سیکرٹری لیبر و مین پاور نے اپنے بیان میں اس خطرے کی نشاندہی بھی کی ہے کہ پاکستان کی GSP پلس سہولت کے سر پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔