بنگلادیش: سرکاری غنڈہ گردی‘ کے بعد ’نام نہاد انتخابات‘

223

تنویر انجم

بنگلا دیش میں گزشتہ روز پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ تادم تحریر نام نہاد الیکشن کے دوران ووٹنگ جاری تھی۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا انعقاد محض ایک رسمی کارروائی ہے کیونکہ حکومت نے اپوزیشن، ناقدین، صحافیوں اور مخالف عناصر کے خلاف سرکاری اداروں، وسائل اور طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو پہلے ہی اپنے حق میں طے کرلیاہے۔ اسی تناظر میں بنگلادیشی اپوزیشن اور عالمی میڈیا بھی قبل ازیں اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جس کے مطابق بھارتی شہ میں پلنے والی حسینہ واجد پر حکمرانی کا بھوت سوار ہے اور وہ ہر قیمت پر الیکشن میں کامیابی چاہتی ہیں خواہ اس کے لیے ملک میں خون خرابا ہی کیوں نہ کرانا پڑے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق موجودہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران کئی افراد حکومتی جبر کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کی دھن میں حسینہ واجد قانونی، غیر قانونی، جائز ناجائز غرض کہ ٹھیک اور غلط کا فرق بھول کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کررہی ہیں جس کی پوری دنیا مذمت کرتی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں حکومت کے ناقد ذرائع ابلاغ کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے صحافیوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنے کے علاوہ اپوزیشن کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی پولیس کے ذریعے جیلوں میں ڈال دیا گیا جبکہ سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ سروس میں تعطل یا اس کی رفتار سست کرکے اپوزیشن کو اپنی انتخابی مہم کے واحد ذریعے سے روکا گیا اور سرکاری طور پر کی گئی دھاندلی کے پول کھولنے پر مبنی شواہد کو روکا گیا۔ اس دوران ملک بھر میں حسینہ واجد کی جماعت بنگلادیش عوامی لیگ کے کارکنوں نے بھارت کی بی جے پی کے ہندو انتہا پسند کارکنوں کی پیروی کرتے ہوئے کھلے عام غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا۔
بنگلا دیش میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے اداروں نے بھی الیکشن مہم کے دوران اپوزیشن اور مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 6 ماہ سے اب تک 450 افراد کو پولیس کے ہاتھوں منشیات فروش قرار دے کر مروایا جا چکا ہے جبکہ سیکڑوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے بعد بھی پولیس کو لگام ڈالنے کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔انتخابی مہم سے روکنے کے لیے اپوزیشن کے ہزاروں کارکنان کو پہلے ہی پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے انتخابی اتحاد کے 70 سے زائد امیدواروں کی جانب سے شکایت درج کروائی گئی تھی کہ حکمراں جماعت کے کارکن غنڈہ گردی کے لیے اپوزیشن کی انتخابی ریلیوں کو روک رہے ہیں اور اس دوران مسلح حملے کرنے سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق میمن گنج سے قومی اسمبلی کے امیدوار شفیق الاسلام نے بتایا کہ انہوں نے پولیس اور الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ انہیں الیکشن مہم چلانے کی پاداش میں قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں، تاہم اب تک کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ خطرات اور جان لیوا حملوں کے پیش نظر اپوزیشن کے انتخابی امیدواروں نے بلٹ پروف جیکٹوں اور نجی سیکورٹی گارڈز کا سہارا لے کر مہم چلانے کی کوشش کی۔
بی بی سی کے مطابق الیکشن کے روز ملک بھر میں 6 لاکھ سیکورٹی اہل کاروں کو مختلف شہروں اور علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ انتخابات میں داغ دار کامیابی حاصل کرنے کے لیے حسینہ واجد نے اپنی سب سے بڑی مخالف بیگم خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں پہلے ہی جیل میں ڈال رکھا ہے۔ ان کے علاوہ اپوزیشن کے ہزاروں کارکنان بھی زیر حراست ہیں۔ حکومت کی جانب سے کامیابی کے لیے کھلی دھاندلی کے ثبوت کئی ذرائع سے سامنے آ چکے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ووٹنگ سے کچھ دیر قبل ہی چٹاگانگ (لکھن بازار حلقہ 10) میں ایک بیلٹ بکس کو ووٹوں سے بھرا ہوا پایا گیا، جس پر بوتھ کے پریزائیڈنگ آفیسر سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو اس نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر کے اس پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی ہی کے نمائندے موجود ہیں اور یہی حال دیگر پولنگ اسٹیشنز کا بھی ہے۔
حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 برس کے دوران  بنگلادیش میں آمریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور پرتشدد واقعات کے ساتھ حالیہ انتخابی مہم کا آغاز حکومت کی جانب سے مخالفین کی آواز دبانے کا ایک حربہ ہے اور اس کے لیے سخت ترین کریک ڈاؤن کیا گیا۔ مبصرین اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہوں گے تاہم اگر لیکشن واقعی شفاف ہوئے تو اس میں دو رائے نہیں کہ عوامی لیگ کو اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ووٹنگ سے پہلے حکومت کی جانب سے دھمکانے کی مہم کا سہارا لیا گیا جبکہ ادارے کے ڈائریکٹر برائے ایشیا بریڈ ایڈمز نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کے اہم ارکان اور حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا، بعض کو قتل کیا گیا ہے جبکہ کئی لاپتا بھی ہیں جس سے خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا ہوا اور یہ کسی بھی قابل اعتبار انتخابات سے ہم آہنگ نہیں۔ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ ان کے ہزاروں کارکنوں اور رضاکاروں کو گزشتہ سال پولیس مقدمات درج کرکے گرفتار کیا گیا۔ واضح رہے کہ بنگلا دیش کی سول سوسائٹی بھی حسینہ واجد حکومت پر مخالفین کو خاموش کرانے اور سخت ڈیجیٹل سیکورٹی کے قانون کے ذریعے آزادی صحافت پر قدغن عائد کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔