امریکی حکمرانوں نے اپنی نسل تباہ کردی

241

سمیع اللہ ملک
دنیاکی ایک جوہری اورسپرپاورسوویت یونین نے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے جب اپنے ہمسایے افغانستان پرراتوں رات حملہ کرکے یہ سمجھ لیاتھاکہ چندگھنٹوں کے بعدوہ اپنی اگلی منزل کی طرف قدم بڑھائے گاتودنیانے دیکھ لیاکہ افغانوں نے اس سپرپاورکواپنی توڑے داربندوقوں سے روک کراس کے غرورکوخاک میں اس طرح ملایاکہ اپنی لازوال قربانیوں سے نہ صرف سوویت یونین کے ارادوں کوخاک میں ملا دیا بلکہ سوویت یونین سے اسے روس کے مقام پرلاکھڑاکیااوراس کے بطن سے 6 اورمسلم ریاستوں کوبھی آزادی مل گئی لیکن دنیاکی دوسری سپرپاورامریکاجواس جنگ کے آغازمیں سوویت یونین کی جارحیت پرگومگوں کی کیفیت میں مبتلا تھی لیکن افغانوں کے اس سرفرشانہ کردارکے بعداس نے اپنے مفادات کے لیے پاکستان کواستعمال کرتے ہوئے افغانوں کی اس جنگ میں ان کی محض اس لیے مددکی کہ سوویت یونین جوکہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس کامضبوط اور طاقتور مدمقابل تھا، افغانوں کے ہاتھوں اس بدترین شکست کے بعدوہ دنیاکی واحدسپرپاوربن گیااورطاقت کے اس نشے نے اسے بدمست کردیااوراس نے ورلڈآرڈرکومتعارف کرواتے ہوئے ساری دنیاکواپنے تابع اوراپنی مرضی کے مطابق چلانے کاسلسلہ شروع کردیا۔
بعد ازاں بدمست امریکا افغان جنگ میں سوویت کی شکست کے فوری بعدافغانستان اور پاکستان کوجنگ کی بدترین معاشی اوردیگرمشکلات میں اکیلاچھوڑکرواپس چلاگیااوراپنے ان تمام عہد وپیمان کویکسربھول کرآنکھیں پھیرکرخطے میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کوتھانیداربنانے کے لیے عملی اقدامات شروع کردیے۔ ان حالات میں پاکستان اورافغانستان جہاں اپنی تباہ شدہ معیشت کواپنی انتھک محنت سے اپنے قدموں پرکھڑاکرنے کی کوششوں میں مصروف تھے، انہی دنوں میں امریکانے سانحہ نائن الیون پراحمقانہ ردّ ِ عمل دکھایااورپوری دنیاپراپنی دھاک بٹھانے کے لیے انسداددہشتگردی کابہانہ بناتے ہوئے ایسی جنگ چھیڑدی جس کاخمیازہ نہ صرف وہ آج تک بھگت رہاہے بلکہ اس نے اپنے مفادات اور بدترین شکست سے بچنے کے لیے بھارت کے توسط سے افغانستان اورپاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیاں شروع کردیں جوابھی تک جاری ہیں۔ امریکاکے اس احمقانہ فیصلے کی پاداش میں جہاں لاکھوں افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں وہاں 30 لاکھ سے زائدافغان بے گھرہو کر پاکستان کی سرزمین پرپنا ہ لینے پرمجبور بھی ہوئے، وہیں پاکستان بھی اب تک 40 ہزارسے زائداپنے فوجی جوانوں اورشہریوں کی قربانی اور بہت بڑے مالی نقصان کے بوجھ تلے اپنی معیشت کودرست کرنے کے لیے جان جوکھوں میں مبتلاہے۔
امریکا جس نے اس خطے میں جنگ چھیڑ کر امن عالم کوجہنم بنانے کی جسارت کی تھی اوراب جب افغانستان کوتہس نہس کرنے کے مذموم عزائم سے لیس امریکی استعمارشکست سے دوچارہو کراپنے تمام ارادوںمیں منہ کی کھاکر بھی یہ حقیقت مان کرنہیں دے رہاکہ وہ مردِ کوہستانی کے مقابلے میں ہیچ ثابت ہوچکاہے۔ پوری دنیاجان چکی ہے اورامریکابھی جان چکاکہ افغانستان میں اس نام نہاداکلوتی سپرپاورکے غبارے سے ہوانکل چکی ہے مگرجان بوجھ کرانجان بننے کا ڈھونگ رچارہاہے۔
جب سانحہ نائن الیون پیش آیاجس میں لگ بھگ 3 ہزارافرادلقمۂ اجل بنے تواس وقت کے قصرسفیرکے فرعون بش نے افغانستان پرپوری قوت اور نفرت کے ساتھ چڑھائی کافیصلہ کیا۔ اس جارحیت کو امریکی سربراہ نے صلیبی جنگ کانام دیا۔ اُس وقت جبرائیل کونڈے زیرتعلیم تھا۔ وہ کالج سے فارغ ہواتوافغانستان کی جنگ ہنوزجاری تھی۔ کونڈے جذبات جوانی کے تحت محاذجنگ پرجانے میں ترغیب محسوس کرنے لگااوربھرتی مرکز جا پہنچا۔ ضروری تربیت کے بعداسے 16 دوستوں کے ساتھ افغانستان بھیج دیاگیا۔ اس دوران اس کاباپ سی این این پر افغانستان کی خبریں سنتا اور سوچتا کہ آخر طالبان کے خودکش حملوں، شہری اور پولیس و فوج کی ہلاکتوں اور سیاسی عدم استحکام کے اس ملک میں اس کا خوبرو نوجوان بیٹاوہاں کیا کررہا ہے جوباپ کی مرضی کے خلاف مہم جوئی کے جذبے کے ساتھ افغانستان چلا گیا تھا۔ اس دوران بش اوراوباما اپنی صدارت کی 2 میعادیں گزارچکے تھے مگریہ منحوس جنگ ٹرمپ کے دورمیں بھی جاری وساری ہے اورہمیں اپنے جوان بیٹوں کی کٹی پھٹی لاشوں کوتابوتوں میں چھپاکرساری عمر کے لیے غم اورصدموں میں مبتلاکیاجارہاہے اورجنگ جاری کرنے والے تمام افرادکی اولادیں یہاں امریکامیں عیش وعشرت کی زندگیاں گزاررہے ہیں بلکہ انہیں امریکاکی قیادت کے لیے تیارکیاجارہاہے ۔
مئی 2018ء میں جبرائیل کونڈے بھی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں کام آگیا۔ اس کے والدین نے امریکامیں جب اپنے اکلوتے جوان بیٹے کا امریکی پرچم میں تابوت وصول کیا تو یہ افغانستان سے آنے والا 2264 واں تابوت تھا۔ جب کونڈے کے دوست اس کے باپ کے سامنے اس کی موت کاانتقام لینے کے لیے واپس افغانستان جانے کا عزم ظاہرکرتے تو کونڈے کے باپ کے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں تھی۔ یہ ویساہی احمقانہ فیصلہ تھا جواس کے بیٹے سمیت دیگرنوجوانوں نے افغانستان کی جنگ میں شرکت کے لیے کیاتھا۔ یہ نوجوان نائن الیون کے وقت اسکول جاتے تھے ۔وہ بڑے ہوئے اورامریکی فوج میں بھرتی کے بعدانہیں افغان جنگ کے بھڑکتے الاؤ میں جھونک دیاگیا۔آج ان کے والدین نیویارک ،شکاگو،ہیوسٹن اوردیگرشہروں میں اپنے بچوں کی لاشیں وصول کرتے ہوئے سوچتے ہیں۔ آخرکس مقصدکے لیے انہوں نے اپنے جگرگوشوں کوافغان جنگ کے جہنم زار میں بھیجناگواراکیا؟
جبرائیل کونڈے کی لاش وصولی کے روزواشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی ایپروپری ایشنز کمیٹی کے ناراض ارکان سیکرٹری دفاع جان میٹس سے اس سوال کاجواب مانگ رہے تھے کہ کیا بے مقصداورطویل ترین جنگ ختم ہوگی یااسی طرح امریکی اپنے جگرگوشوں کوافغان جنگ کارزق بناتے رہیں گے۔ میٹس کے پاس اپنے ساتھیوں کے اس سوال کوکوئی جواب نہیں تھا۔ ’ واشنگٹن ایگزامینر‘کے ایڈیٹرخودبھی افغان جنگ میں حصہ لے چکے تھے۔ انہوں نے بڑے برملااندازمیں ٹرمپ سے یہ پوچھاہے کہ اسے یہ بتاناپڑے گاکہ یہ جنگ کس انجام کوپہنچ رہی ہے۔ ایک فوجی کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ کس لیے لڑ رہا ہے۔ حکومت ہمیں بتاتی کیوں نہیں کہ وہ کون سی کامیابیاں اورمقاصدہیں جوہم نے 17برس میں حاصل کئے؟ ہمارے ہنستے مسکراتے سرخ وسفیدنوجوان چہرے کب تک افغانستان جاتے اورلاشوں کی صورتوں میں تابوتوں میں واپس آتے رہیں گے اوراپنے والدین کے مستقبل کے تمام خوابوں کوپری طرح چکناچورکرتے رہیں گے۔
دنیا جانتی ہے کہ اگرامریکاافغانستان سے مکمل طورپرنکل آیاتوافغان حکومت کاچندگھنٹوں میں دھڑن تختہ ہوجائے گااورطالبان انتہائی آسانی کے ساتھ ملک کا نظام حکومت دوبارہ سنبھال لیں گے لیکن کیااس خوف سے امریکااگلے 100 سال تک افغانستان میں اپنے نوجوانوں کی قربانی دیتارہے گا۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ جنگ خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے امریکاافغانستان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اس وقت طالبان افغانستاان کے 70 فیصدعلاقے پرقابض ہیں۔امریکی مدیر کا کہنا ہے کہ میرے دوست اب بھی انہی پہاڑوں میں مورچہ بندہیں جہاں میں انہیں چھوڑآیاتھالیکن کوئی مجھے بتائے کہ ہلمندمیں کوئی طالبان کمانڈریااہم لیڈرماراجاتاہے توادھرورجینیا میں میری سلامتی سے اس کاکیاتعلق ہے یاامریکی عوام کواس کاکیافائدہ پہنچتاہے۔
امریکاکے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے بھی بالآخراعتراف کرلیاکہ امریکانے فغانستان جنگ میں مسلسل 14سال تک اپنے تمام جنگی وسائل استعمال کرکے دیکھ لیالیکن اس جنگ کے بعدطالبان کویہ فرق پڑاکہ وہ پہلے دن سے کہیں زیادہ مضبوط نظرآرہے ہیں اورماسوائے ایک چھوٹے علاقے کے باقی سارے افغانستان پران کی گرفت مضبوط اوروہاں کے عوام صرف طالبان حکومت کے احکام کے پابندہیں۔ اللہ کی قدرت ہے کہ سپرپاورکے زعم میں مبتلاامریکاجوطالبان کاصفایاکرنے دعوے کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا اب بارباران سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہاہے۔
چند ہفتے قبل ماسکومیں مذاکرات کاایک دورہواجس میں پاکستان،کابل حکومت ،امریکا ،ایران اورطالبان کے نمائندے شریک ہوئے ۔وہاں طالبان نمائندے نے امریکی فوجی انخلا کی شرط پراصرار کیا۔ اب قطرمیں طالبان اورامریکی نمائندے زلمے خلیل زادکے درمیان 3 روزمذاکرات ہوئے ہیں۔طالبان نے اگلے برس صدارتی انتخاب ملتوی کرنے اورغیرجانبدارعبوری حکومت تشکیل دینے پرزوردیا۔ عبوری حکومت کے لیے تاجک اسلامی اسکالرعبدالستارسیرت کانام پیش کیا گیا۔ زلمے خلیل زادتمام امور 6 ماہ کے اندرحل کرناچاہتے تھے تاہم طالبان نے اس مدت کوبہت مختصرقرار دیا۔
طالبان کی جہادی یلغاروں کے مقابلے میں امریکابے بس ہوچکا ہے مگراس کامغرورصدرٹرمپ امریکی ناکامیوں پرپاکستان کوموردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اپنے بھاشن میں ٹرمپ نے کہاکہ پاکستان نے اسامہ کوپناہ دی اورامریکاسے سالانہ 3.1 ارب ڈالر مدد لے کر بھی کچھ بھی نہیں کیا۔ ساری دنیاجان چکی ہے کہ ٹرمپ جھوٹ اچھالنے کی مشین ہے اور بغیرکسی تحقیق کے ایسے الزامات اچھالنے کی لت میں مبتلا ہے، نفسیاتی مریض ہے اوراحمقانہ حدتک لاابالی اوراوچھے پن کامظاہرہ کرتارہتاہے۔امریکانے پاکستان کو کولیشن فنڈمیں جوکچھ دیااسے امدادکانام نہیں دیاجاسکتا۔ یہ پہلے سے طے شدہ پاکستانی بندر گاہیں، فضائی اڈے اورشاہراہیںاستعمال کرنے کا کرایہ تھا۔ اس پرمستزاددہشتگردی کاعذاب ہے جو امریکا سے پاکستان کے تعاون اورپاکستان کے اندرامریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہمیں بھگتناپڑرہاہے۔
امریکابہادرکوپاکستان میں انتہائی نامعقول تنقیدکے بجائے اس بات کی فکرکرنی چاہیے کہ وہ جنگ ہارچکاہے جواس کے تکبرکانتیجہ بھی ہے ۔ان امریکی فوجیوں کے تابوتوں کے مسلسل امریکاپہنچنے پرردّ ِ عمل کاتقاضا ہے کہ اب وہ بلاتاخیراپنی شرمناک شکست اورہزیمت کااعتراف کرکے افغانستان سے نکل جائے کہ اس کی عافیت اسی میں ہے۔