منی لانڈرنگ کیس؛سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

442

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم دیتے ہوئے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دیدی۔

سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے سارے معاملے پر حیرت ہوئی کہ کیسے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے اور وفاقی حکومت اس کی کیسے وضاحت دیگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جواب گزاروں کو جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب داخل کرنے کا کہا اور حکومت نے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ایک چٹھی لکھ دی تو کسی نے اس پر ذہن استعمال نہیں کیا، جے آئی ٹی کوئی صحیفہ آسمانی نہیں، کسی نے گورنر راج لگایا تو اسے اڑانے میں ایک منٹ لگے گا۔عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، جنہیں مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ خبردار کسی نے آئین سے باہر ایک بھی قدم اٹھایا، مسٹر وزیر داخلہ، جا کر اپنے بڑوں کو بتادیں ملک صرف آئین کے تحت چلے گا، ہم نے تو اس وقت بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جب تھریٹس تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی کابینہ کے ارکان ٹی وی پر بیٹھ کر گورنر راج کی باتیں کررہے ہیں، 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے معاملے کو کابینہ میں لے جا کر نظرثانی کریں۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ مقدمے کے حوالے سے حکومت اور دوسری طرف کے لوگ بیان بازی سے گریز کریں، اگر ہم نے کسی کا کمنٹ پکڑ لیا تو کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ کارروائی کسی کے کہنے پر کی جارہی ہے، یہ کارروائی کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ معاملات سامنے آنے پر ہم اپنے ضمیر کے مطابق کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تاحال توثیق نہیں کی اور ساری کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کررہے ہیں، ان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے۔چیف

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وزراء رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی کارکردگی بتارہے ہوتے ہیں، تمام سیاستدان سن لیں، ہم نے قانون بنا کر اسمبلی کو بھجوائے ہیں۔وران سماعت ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سندھ حکومت پر گہرے بادل منڈلا رہے ہیں، فارورڈ بلاک اور استعفے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت کے خلاف عدالت کوئی فریق نہیں، سپریم کورٹ نے انصاف کرنا ہے، عدالت کی نظر میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، عدالت کو سیاسی معاملے میں فریق نہ سمجھا جائے، رپورٹ کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے کیس میں پیش ہونے سے معذرت کی لیکن عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔

 وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک مقدمے میں آصف زرداری کے وکیل تھے لیکن جے آئی ٹی نے فاروق ایچ نائیک کو بھی ملزم بنا دیا جس کی وجہ سے انہوں نے زرداری، فریال تالپور کی وکالت سے معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی فاروق ایچ نائیک سے متعلق سفارشات کالعدم قرار دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کی مقدمہ سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کردی اور انہیں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی وکالت جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ جواب کے لیے چار دن کا وقت دے دیں۔ عدالت نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو اسی ہفتے کیس میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مراد علی شاہ سندھ کی وزارت اعلی چھوڑ کر بھاگ جائینگے، کیا ان کا نام اس موقف سے ڈالا گیا، مراد علی شاہ صوبے کے وزیر اعلی ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے تھا، جے آئی ٹی کی سفارش تھی تو عدالتی حکم کا انتظار کر لیتے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے لوگوں کو ای سی ایل میں کیوں ڈالا، کیا ای سی ایل میں نام ڈالنا اتنی معمولی بات ہے، 172 لوگوں کیساتھ اپنے وزیر اعلی کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں، سب سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیتے ہیں، عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تاحال تو ثیق نہیں کی، جس وزیرنے یہ نام ڈالے ہیں وہ متعلقہ ریکارڈ لے کرسپریم کورٹ آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کیا جواب دے گی، کل کو نیب چیئرمین کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں گے۔ کابینہ کا کیا تعلق ہے اس سارے معاملے میں، یہ شہریوں کی آزادی کا معاملہ ہے، کیا ایسے ہی نام اٹھا کر ای سی ایل میں ڈال دئیے جاتے ہیں ، متعلقہ وزیرکو کہیں سمری بھی ساتھ لے کر آئے، حیرت ہے کہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے موجودہ وزیراعلی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، نہ تکبر سے بات کریں گے نہ ہی نا انصافی کریں گے، یہاں صرف انصاف ہو گا، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔

جے آئی ٹی کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی منتخب نمائندے کی نااہلی کی بات نہیں کی، کسی کی نااہلی کی سفارش کرنا جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا، جے آئی ٹی نے کسی کی گرفتاری سفارش نہیں کی، گرفتاری کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے، جے آئی ٹی کا مینڈیٹ محدود تھا، اس لئے وہ اپنے مینڈیٹ سے باہر نہیں گئی۔وکیل شاہد حامد نے کہا کہ انور مجید اور عبد الغنی مجید کا جواب آ چکا ہے جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دونوں کی جانب سے مفصل جواب نہیں آیا۔

 وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ اومنی گروپ تمام متعلقہ دستاویزات مانگ رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے انورمجید اور عبدالغنی کا جیل میں رہنے کا دل کرتا ہے، بتا دیں کونسی دستاویزات چاہئیں جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ جو دستاویزات انہیں درکار ہیں وہ فراہم کردی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید اور عبد الغنی مجید نے سر سری جواب داخل کیا، انور مجید کے وکیل کے مطابق وہ اومنی گروپ کے جواب پر انحصار کریں گے۔

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہو گئے؟۔ سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ہمارے سکریٹریٹ سے کوئی چیز لیک نہیں ہوئی، میڈیا نے سنی سنائی باتوں پر خبریں چلائی، چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا نے کیس چلانا ہے تو یہ کیس میڈیا کو بھیج دیتے ہیں، میڈیا کے لوگ زیر التوا مقدمات پر رائے دینا شروع کر دیتے ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ آپ کا نام ہر جگہ کیوں آجاتا ہے جس پر ملک ریاض نے جواب دیا کہ میں پاکستان میں کام کر رہا ہوں نام تو آئے گا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ انہیں لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کے نام جعلی اکاؤنٹس کیس میں آئے ہیں۔ملک ریاض نے عدالت سے کہا کہ میں نے 2005 میں بحریہ آئیکون کیلئے زمین خریدی تھی اور اس وقت صوبے یا وفاق میں آصف علی زدردای یا ان کی جماعت کی حکومت نہیں تھی بلکہ پورے ملک میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو نیب کی جانب بھیج دیتے ہیں۔انہوں نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کہا تھا کہ آپ ایک ہزار ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروادیں، تو معاملات نمٹا دیتے ہیں جس پر ملک ریاض نے کہا کہ اتنا تو میں نے گزشتہ 2 دہائیوں میں کمایا نہیں ہے جتنا عدالت مانگ رہی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اربوں روپے کی جائیدادیں بنائی ہیں، چلیں پھر 500 ارب ہی دے دیں کچھ پیسے تو واپس کریں جبکہ جائیدادیں اور علی ریاض کا گھر بھی آپ لے لیں۔ملک ریاض نے بحریہ آئیکون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکر کریں میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ 66 منزلہ عمارت تعمیر کی۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈالا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا گیا تھا، یہ تمام الجھن جے آئی ٹی کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہے۔

عدالت نے وفاقی کابینہ کو وزیراعلٰی سندھ، موجودہ وزرا سابق صدر وزرا اور دیگر سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر نظرثانی کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس وقت بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جب دھمکیاں آرہی تھیں اور آج بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، حکومت کو ای سی ایل کے حوالے سے واضح بیان دینا چاہیے۔