اپنا اپنا پیمانہ

568

سابق وزیر اعظم نواز شریف عدل اور ووٹ کے تقدس کی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ کام اس وقت کیوں ہو جب اپنی گردن پھنسی ہو، عام آدمی بھی ووٹ کا تقدس اور عدل چاہتا ہے لیکن اس کے پاس وسائل اور افرادی قوت کہاں ہے جو تحریک چلا سکے یہ کام تو وہی کرسکتا ہے جس کے پاس یہ دونوں نعمتیں ہوں اگر نواز شریف یہ کام اپنے اقتدار کے دوران کرتے تو انہیں پارلیمنٹ کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا اور وہ قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں شریک بھی ہوتے یہی بنیاد ہے ووٹ کے تقدس کی اور عدل کا تقدس یہ ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ وہ تمام لازم وسائل مہیا کریں جو عدل اور انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے درکار ہیں کیا یہ دونوں کام ہوئے ہیں؟ اگر ہوئے ہیں تو پھر نواز شریف کو عدل کی بحالی کی تحریک چلانے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر اس کام میں کہیں کوئی کوتاہی اور کمی رہ گئی ہے تو مسلم لیگ (ن) کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دے۔ یہ کام صرف مسلم لیگ کا نہیں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کی آئینی اور سیاسی ذمے داری کہ وہ اپنا جائزہ لے کہ اس نے ان پانچ سال میں عدل کی بحالی اور ووٹ کے تقدس کے لیے کیا کام کیا ہے آئین کہتا ہے کہ ہر شہری دستور پاکستان کا وفادار رہے گا، آئین کہتا ہے کہ یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے، اسلام میں تو خلیفہ بھی بتاتا ہے کہ دو کرتے کہاں سے آئے لیکن آج کی جمہوریت تو حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے یہاں تو اس وقت تقدس یاد آتا ہے جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے اسی لیے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوجاتا ہے کہ جب کوئی شہری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوجاتا ہے تو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ پارلیمنٹ میں کبھی یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ ملک میں کتنے لوگ ہیں جن کے پلاٹوں پر سرکاری ملازمین نے قبضہ کررکھا ہے، سیاسی لوگوں کی سرپرستی میں یہ کھیل کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا، اس پارلیمنٹ نے کب پوچھا کہ ہسپتالوں میں ادویات چوری ہو کر بازار میں کیوں فروخت ہوجاتی ہیں، اس پارلیمنٹ میں کبھی یہ نہیں پوچھا گیا کہ معاشرے کو بے راہ روی پر لگانے والے ٹی وی ڈراموں کے باعث کتنے گھرانے ہیں کہ جن کی بیٹیاں طلاق اور خلع لے چکی ہیں اور ایسے کتنے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ایک عرصہ ہی ہوگیا ہے بلکہ شاید یہ کبھی نہیں ہوا کہ پارلیمنٹ میں ان افراد کی فہرست پیش کی گئی ہو جو بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں اور پھر خسارے کی بنیاد پر قرض معاف کرا چکے ہیں۔ روزگار کے لیے بیرون ملک جانے والے کتنے ہیں جو سمندروں کی لہروں کی نذر ہوئے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں کبھی یہ رپورٹ پیش نہیں ہوئی اس کام میں ملوث گروہ کے افراد قانون کے ہتھے چڑھے ہیں یا نہیں؟
آئین اور قانون کہتا ہے کہ وزیر اعظم اور صدر اور وزراء کسی منافع بخش کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے لیکن اس پارلیمنٹ کے بے شمار ایسے رکن ہیں جن کے پاس اقامے ہیں اور اگر ہیں تو وہ تنخواہ لے رہے ہوں یا نہ لے رہے ہوں نواز شریف کیس کے فیصلے کے رو سے یہ سب کے سب نااہل قرار پاسکتے ہیں لیکن ہر طرف اس معاملے میں ایک خاموشی ہے۔ لاپتا افراد کا معاملہ سنگین رخ اختیار کرتا چلا جارہا ہے یہ بات بھی درست ہے اس میں کچھ کیس ایسے ہیں جو محض خبر بنانے کے لیے ہیں لیکن کچھ کیسز واقعی توجہ کے قابل ہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے کتنے کیس ہیں جو نواز شریف کی توجہ حاصل کرپائے۔
ووٹ کے تقدس اور عدل کی بحالی کی تحریک تو یہاں سے شروع ہونی چاہیے تھی اس ملک میں کتنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں جو اپنے صارفین سے پیسے بٹور چکی ہیں مگر انہیں پلاٹ نہیں دیے، اور کتنی ہیں جو سرکار کی زمین پر ناجائز طریقے سے بنائی جارہی ہیں اور بنائی گئی ہیں ان کا حساب کب پارلیمنٹ نے مانگا ہے؟ گزشتہ دنوں آرمی چیف سینیٹ میں آئے، سینیٹ اراکین کو قومی سلامتی پر بریفنگ دی اگلے روز کیا ہوا خفیہ قرار دی جانے والی بریفنگ کی کتاب کا ہر صفحہ بازار میں موجود تھا کیا یہی ووٹ کا تقدس ہے کہ ایک امانت والی گفتگو چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے کہ گلی کوچوں تک پہنچ گئی اب ایک بات بابا کے حوالے سے ہورہی ہے ’’بابا‘‘ نے اپنا آپ پوری قوم کو فیصلوں کے ذریعے دکھا دیا ہے اچھا ہوتا چیف جسٹس نہ بولتے اور معاملہ میڈیا میں نہ اچھلتا، کیوں کہ جج خود نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔
بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کو مشرف نے قتل کرایا بہت ہی سنگین اور حساس الزام ہے جو لگا رہا ہے اسے بھی علم ہے کہ کیا کہا اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے اسے بھی علم ہے وہ کمر درد کا بہانہ بناکر ملک سے چلے گئے منی لانڈرنگ کا پرانا حوالہ حدیبیہ کیس کھل کر بند بھی ہوچکا ہے اور عدالتیں آرٹیکل 184/3 کے تحت سیاسی دلدل میں کمر تک دھنس چکی ہیں ہم تو اس سارے قصے میں قانون تلاش کر رہے ہیں یہ کہیں نظر نہیں آرہا البتہ اس ملک میں قانون ہے عدل ہے، انصاف بھی ہے مگر انداز اپنا اپنا۔۔۔ اپنے انداز حکمرانی و سیاست سے جلنے والوں کا منہ مزید کالا کرنے کے لیے ووٹ کے تقدس اور حرمت کے لیے ایک بار محاذ سنبھالا جارہا ہے یہ ایک ایسا بھاری پتھر ہے، جو نواز شریف ہمیشہ اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد اٹھاتے ہیں، اپوزیشن کا نواز شریف میموگیٹ پر فوج کے اشارے پر عدالت میں فریق بن جاتا ہے ڈان لیکس کے ذریعے حملہ آور ہونا چار سال تک ناکام خارجہ پالیسی دینا اس کی کوئی اہمیت نہیں مگر جب بات خود پر آئے تو ووٹ کا تقدس مجروح ہوجاتا ہے ووٹ لینے کے بعد اگر کوئی حاکم بن جائے تو ’’تمہیں کیا‘‘ جو جی میں آئے کرتے پھریں! ہر بیرونی دورے کا اختتام اگرلندن جاکر ہوتا ہے تو اس وقت عدل کی بحالی اور ووٹ کے تقدس کی بات کیوں نہیں ہوتی۔