بھارت: پرسنل لا بل کی منظوری حکومت کا غیر آئینی اقدام قرار

504

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) آل انڈیا امامز کونسل کے صدر مولانا احمد بیگ ندوی نے کہا ہے کہ پرسنل لا کی منظوری مودی سرکار کا غیر آئینی اقدام ہے۔ حکومت کا کام پرنسل لا میں مداخلت کرنا نہیں‘ بلکہ اس کی حفاظت کرنا ہے۔ کسی بھی مذہب کے سول لا میں حکومت کی مداخلت اور قانون سازی ایک غیر آئینی اقدام ہے۔ ملکی دستور اور عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق جب پرنسل لا میں مداخلت جائز نہیں ہے تو پھر قانون سازی کیوں؟ یہ کالا قانون براہ راست عورتوں کو ہمیشہ کی دلدل میں ڈال دینے اور خاندان کے بیچ میں ہمیشہ کے لیے دراڑ پیدا کر دینے کی سنگین سازش کا حصہ ہے۔ ان باتوں کا اظہار آل انڈیا امامز کونسل کے صدر مولانا احمد بیگ ندوی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ملک میں انتشار اور مسلمانوں اور دلتوں میں احساس کمتری پیدا کرنا نہیں چاہتی تو مذہبی مسائل میں مداخلت کرنا بند کرے اور مسلم عورتوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو نجیب کی ماں اور گجرات میں متاثرہ ماؤں کو انصاف دلائے۔ اس قانون سازی سے جس طرح مسلمانوں‘ دلتوں اور دیگر اقلیتوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے‘ وہیں بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ احمد بیگ نے مزید کہا کہ تین طلاق پر قانون سازی ایک متضاد‘ مسلم دشمنی پر منحصر‘ آئینی آزادی کے خلاف اور پرسنل لا میں سراسر غیر آئینی مداخلت ہے اس لیے حکومت فوری طور پر یہ فیصلہ واپس لے کیوں کہ مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں یہ قانون منظور نہیں اور وہ کسی بھی حال میں شریعت مخالف قانون پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کونسل کے ترجمان نے کہا کہ آل انڈیا امامز کونسل عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ملک کے تحفظ و بقا اور آئینی بالادستی اور پرسنل لا کی بحالی کے لیے حق و انصاف کا ساتھ دیں۔ تمام برادریاں متحد ہو کر اس کالے قانون کے واپس لینے تک احتجاج جاری رکھیں۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی بھارتی مسلمانوں کے خدشات کے باوجود پارلیمان نے بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کا بل منظور کر لیا۔ ’مسلم ویمن پروٹیکشن رائٹس آن میرج بل2017‘ کے نام سے اس مسودے کے قانون بن جانے کی صورت میں بیک وقت تین طلاقیں دینا ایک قابل تعزیر اور ناقابل ضمانت جرم ہو گا اور اس کے مرتکب کسی بھی شہری کو 3 سال قید کی سزا اور جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کو ’شریعت میں مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے ۔یہ بل پیش کرتے وقت بھارتی وزیر قانون روی شنکر نے پارلیمان میں انتہائی جذباتی تقریر کی اور کہا کہ یہ خواتین کے وقار کا سوال ہے ، ہم شریعت میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے ۔ اس بل کو مذہب کے ترازو پر نہ تولا جائے ۔ یہ بل ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کا بل ہے ۔ یہ بل مسلم خواتین کو ان کا حق دلانے کی کوشش ہے ۔ ہم آج تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔