چین کے غریب گھرانے کا بچہ کروڑوں لوگوں کے روزگار کا باعث

کسے معلوم تھا کہ چین کے شہر ہنگ زُو کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والا بچہ آئندہ چند سالوں میں پوری دنیا معاشی ہلچل مچانے والا ہے۔محنت اور لگن کا عادی، من کا سچا اور دُھن کا پکا یہ نوجوان کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا  رہا اور بالآخر دنیا کا امیر شخص بن گیا۔ اس کی زندگی حیرت انگیز واقعات اور جہدوجہد سے لبریز ہے۔ اس کا بچن انتہائی سخت حالات اور ناکامیوں میں گزرا۔  دنیا کی مشہور زمانہ فوڈ چین کے ایف سی میں جب اس نے پہلی ملازمت کے لئے اپنے کوائف جمع کرائے تو اس کے علاوہ دیگر 24خواہش مندوں کو جاب مل گئی۔یہی حال میکڈونلڈ میں بھی اس کے ساتھ ہوا۔ ان دونوں فوڈ چینز کی انتظامیہ نے اس  نوجوان کونالائق تصور کیا ۔

اس نوجوان نے ہمت نہ ہاری… شاید یہی وجہ تھی جب 55سال کی عمر میں چنی آنکھوں اور چپٹے گالوں والے اس دھان پان جسامت کے حامل شخص نے اپنی کمپنی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اس کے ذاتی اثاثوں کی مالیت 3506بلین ڈالرز تھی۔ جو کم و بیش ساڑھے پانچ کھرب روپے بنتی ہے۔

اس لڑکے کا بچپن بھی کوئی خاص نہ تھا اور پڑھائی میں بھی اس کا کچھ خاص دھیان نہ تھا  تاہم اسے انگریزی زبان سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔  اپنے آبائی علاقے میں کسی غیر ملکی کو دیکھ لیتا تو فوراً بے تکلف ہوجاتا اور اس سے انگریزی میں بات چیت کی کوشش کرتا اور اس سے قلمی دوستی کرلیتا۔اس کے جنون کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ 70میل سائیکل پر سفر طے کرتا سیاحوں کے ایک بڑے مرکز صرف اس لئے پہنچتا کہ ان سے انگریزی میں بات کرسکے۔

اُس نے جیسے تیسے1988میں انگلش میں بی اے کیا ۔ ہارورڈ بزنس اسکول میں 10مرتبہ داخلے کی کوشش کی اور ہر بار ناکام ہوا۔ مگر حقیقت میں کامیابی اس کی کہیں اور منتظر تھی۔ بل آخر اس نے چند کارکنان کے ساتھ مل کر ایک اپارٹمنٹ میں چھوٹی سی کمپنی قائم کی۔بچپن اور جوانی میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنے والے اس شخص نے  اعداد و شمار کے جادوگروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔   محض 18 کارکنان کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں شروع کیا جانے والا کاروبار 30ہزار ملازمین تک جا پہنچا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے وابستہ کمپنیوں اور اداروں نے 14ملین ملازمیتیں پیدا کیں اور تقریباً 10ملین سے زیادہ خاندانوں کی کفالت کا ذریعہ بنا۔

دنیا کے چند امیراور اہم ترین لوگوں میں شمار کیا جانے والایہ شخض، چین کی کمیونسٹ پارٹی کا رُکن، دنیا بھر میں چینی مصنوعات اور تجارت کا سفیر،سیاست دان، سرمایہ کار اور دنیا کی سب سے بڑی تجارتی ویب سائٹ “علی بابا” کا مالک جیک ما ہے۔
اس کی کمپنی “علی بابا” کی شہریت کا یہ عالم ہے  کہ دنیا کی دیگرکمپنیاں اس پر رجسٹرہونے کو اپنی تجارت کے فروغ کے لئے ضروری سمجھتی ہیں۔10ملین سے زیادہ لوگ ہر روز علی بابا کی ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہیں اور براہِ راست یا بالواسطہ اربوں کھربوں کی خریداری کرتے ہیں۔

جیک ما نے کیا خوب صورت بات کہی

“ اگر بندروں کے سامنے کیلے اور پیسے ایک ساتھ رکھے جائیں تو وہ ہمیشہ کیلوں کا انتخاب کریں گے ،اس لئے کہ انہیں یہ بات نہیں معلوم کہ پیسوں سے بہت زیادہ کیلے خریدے جا سکتے ہیں ۔ ”

یہی حال کاروبار پر ملازمت کو ترجیح دینے والوں کا بھی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ منافع ہر حال میں اُجرت سے بہتر ہے۔

 اُجرت سے پیٹ پالا جاسکتا ہے جبکہ منافع سے اپنی اور دوسروں کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔