سراج الحق کا سینیٹ سیشن میں خطاب

اس وقت ہم حالت جنگ میں تو نہیں ہیں، ،پارلیمنٹ بھی موجود ہے سینیٹ بھی موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ آرڈیننسز کا ایک سونامی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں اور ہمیں آج پہلی بار سمجھ آیا کہ سونامی کیا ہوتی ہے۔

آپ کوئی بھی ایسی تجویز لائیں جو عوام کے مفاد میں ہو ہم آنکھیں بند کرکے ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن موجودہ آرڈیننس پر کسی بھی مرحلے پر آپ مشاورت کرتے۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی کیفیت ہے،

مارشل لاء بھی نہیں ہے، جمہوریت بھی نہیں ہے آمریت بھی نہیں ہے اس لئے کہ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں مارشل لاء اور آمریت کے زمانے میں ایک فرد واحد فیصلہ کرتا ہے لیکن جب ایوان موجود ہے اس پارلیمان کے ہوتے ہوئے ایسے فیصلے کرنا جس پر ہم کل قوم کے سامنے جواب دہ ہوں ہم کیا کہیں گے کہ ہم اس ایوان کا حصہ بھی تھے اور یہ سب کچھ بھی ہورہا تھا

 میری  درخواست ہے کہ خدا کے لئے اپنے ریوں کو تبدیل کیا جائے اپنی ادائوں پر غور کیا جائے۔  بہت سے حکومتی ارکان کی تقاریر موجود ہیں انہیں دیکھیں ان تقایر میں آرڈیننس کے حوالے سے ان کے اقوالِ زریں موجود ہیں کہ جب پارلیمنٹ کی موجودگی میں کوئی بھی حکومت آرڈیننس کےطرف جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت چوری کرتی ہے۔

آج سواتی صاحب وہی سب کچھ کررہے ہیں ۔ رضا ربانی صاحب نے دو سو دس ارب روپے کا ذکر کیا اور ہمیں اس کی ہر گز امید نہ تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایسا کچھ ہوگا کہ لوگوں کے وہ قرضے معاف ہوں گے جو ان پر قوم کی طرف سے واجب الادا ہیں۔

خود وزیر اعظم صاحب جب وزیر اعظم نہیں بنے تھے ان کا بہت ہی خوبصورت فقرہ ہے کہ ”یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے کہ آپ اس طرح معاف کرتے ہو“تو آج ہم بھی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ ”یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے کہ اس طرح معاف کرتے ہو“۔