آرٹیکل 370کا خاتمہ اور بھارتی میڈیا کا منفی کردار

کشمیر میں آرٹیکل 370 کےخاتمے کے بعد کشمیر کی موجودہ صورتحال کو کس طرح سے بھارتی میڈیا چھپانے کی کوشش کررہا ہے اور کس انداز سے غلط خبریں پھیلا رہا ہے اس حوالے سے بھارت ہی کی ایک میڈیا پرسن عارفہ خانم شیروانی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتی ہیں ایک ہفتہ سے زیادہ ہوا کشمیر میں کرفیو نافذ ہے جبکہ ہر قسم کا مواصلاتی نظام معطل ہے۔ ٹیلی فون، انٹرنیٹ پر مکمل پابندی ہے۔ ٹی وی کیبلز یہاں تک کہ خبروں تک رسائی بھی وہاں کے باسیوں کے لیے ناممکن بنادی گئی ہے۔

 جہاں ایک طرف اس قدر قدغن بھارتی حکومت کی جانب سے لگائی گئی ہے وہیں بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ خبریں دینا کہ کشمیر میں امن ہے، چین ہے، سکون ہے صحافتی اقدار کی بدترین مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔

بھارت کے یوم آزادی کے حوالے سے بھارتی چینلز پر کشمیری عوام کو نغمے گنگناتے دکھایا جارہا ہے جبکہ یہ حقیقت سے کوسوں دور بلکہ برعکس ہے۔

غیر ملکی میڈیا کی جانب سے نشر کی گئی خبروں کونہ صرف جھٹلایا جارہا ہے بلکہ اسے ایک سازش کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

9اگست کو بی بی سی کی جانب سے ایک واقعے کی کوریج کی گئی جس میں کشمیری مسلمانوں کو پتھرائو کرتے دکھایا گیا ہے واقعہ کچھ یوں تک کہ مسلمان مسجد سے نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ چند شرپسند عناصر نے ان پر امن مسلمانوں پرپتھر پھینکے جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی۔

اس خبر کو پہلے جھٹلایا گیا جبکہ بعد میں اس خبر کو درست مانا گیا۔

اشرف آزاد کو بھارتی میڈیا میں پورے کشمیر کی آواز کے طور پر دکھایا گیا جو مختلف چینلز کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں یہ بتارہے ہیں کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ حقیقت میں اشرف آزاد جموں کشمیر میں بی جے پی کے مستقل کارکن کی حثیت رکھتے ہیں

ایک جانب تو کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف ان کو اعتماد کے لیے بغیر کیا گیا تو دوسری جانب بھارتی میڈیا اور سرکار اب یہ ڈھونگ رچانے میں مگن ہیں کہ کشمیری اس فیصلے سے بہت خوش ہیں

لیکن سچ کبھی چھپتا نہیں بالآخر ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے گو کہ سچ بولنے والے تھوڑے ہوتے ہیں۔

نئی دلی میں بھارتی عوام جو حقیقت سے آگاہ ہیں انہوں نے 15 اگست بھارت کے یوم آزادی پر ریلی نکالی اور بھارتی حکومت اور اس کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا